سعودی عرب نے امریکی دفاعی کانٹریکٹرز سے سات بلین ڈالر مالیت کا جدید اسلحہ خریدنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق اس ڈیل کے تحت ریاض حکومت اہداف کو درست طریقے سے نشانہ بنانے والا گولہ بارود خریدے گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سعودی سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب نے امریکی دفاعی کانٹریکٹرز سے سات بلین ڈالر کا جدید اسلحہ خریدنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ تاہم امریکا میں کئی قانون دان اس ڈیل پر اعتراض کر سکتے ہیں کیونکہ سعودی عرب امریکا سے حاصل کردہ اسلحہ یمن جنگ میں بھی استعمال کر رہا ہے اور وہاں سعودی عسکری اتحاد کی فوجی کارروائیاں شہری ہلاکتوں کا باعث بن رہی ہیں۔
روئٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مئی میں دورہ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک نے 110 بلین ڈالر کے عسکری معاہدے کیے تھے اور یہ ڈیل بھی انہی بڑے معاہدوں کا ایک حصہ ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ریاض حکومت شہری ہلاکتوں میں کمی کی خاطر بنایا جانے والا یہ جدید اسلحہ ریتھین اور بوئنگ نامی دو کمپنیوں سے خریدے گی۔ تاہم اس تناظر میں زیادہ تفصیلات بیان نہیں کی گئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو اسلحہ کی فروخت امریکا میں ایک حساس معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ امریکی کمپنیوں کی طرف سے اسلحہ کی ایسی ڈیلز کو حتمی شکل دینے سے قبل کانگریس کی منظوری بھی لازمی ہے۔
ابھی تک امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی اس ڈیل پر کانگرس کو اعتماد نہیں لیا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار کے مطابق ایسی کسی بھی ڈیل سے قبل تمام امور کو اچھی طرح پرکھا جائے گا۔
مارچ سن دو ہزار پندرہ سے یمن میں جاری خانہ جنگی کے سبب کم از کم پانچ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھر ہو چکی ہے۔ ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری اتحاد برسر پیکار ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق سعودی اتحاد کی کارروائیوں کی وجہ سے بیشمار شہری بھی مارے جا چکے ہیں۔ ایسی خبروں پر عالمی سطح پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم سعودی عرب ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ وہ شہری علاقوں پر بمباری کر رہا ہے۔
کچھ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے اہداف کو انتہائی سرعت سے نشانہ بنانے والے اس اسلحے کے باعث یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری سعودی عسکری کارروائی میں شہری ہلاکتوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
تاہم واشنگٹن میں سیکورٹی ماہر ڈیوڈ ڈیس روخیز کا کہنا ہے کہ اس جدید اسلحے کے حصول کے بعد بھی سعودی حکام کے رویے میں کسی قسم کی لچک کی امید نہیں کی جا سکتی ہے، ’’سعودی عرب نے ظاہر کر دیا ہے کہ ہم جو بھی سوچیں اور کہیں لیکن وہ یمن میں جنگ جاری رکھے گا۔‘‘
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔