’سعودی عرب خاشقجی کی موت کی ذمے داری قبول کر لے گا‘، رپورٹ
16 اکتوبر 2018
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت ایک ایسی رپورٹ کی تیاری میں مصروف ہے، جس میں ترکی کے شہر استنبول میں لاپتہ ہو جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت کی ذمے داری قبول کر لی جائے گی۔
اشتہار
سی این این نے اپنی نشریات میں کہا کہ سعودی حکام جو رپورٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں، اس میں مبینہ طور پر یہ اعتراف کر لیا جائے گا کہ جمال خاشقجی استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں دوران تفتیش ہلاک ہو گئے تھے۔
اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جنہوں نے پہلے یہ کہا تھا کہ سعودی عرب خاشقجی کے لاپتہ ہو جانے کی مکمل وضاحت کرے، خاشقجی کی گمشدگی میں کسی بھی طرح ملوث ہونے کے بارے میں سعودی عرب کی طرف سے ’بہت سخت تردید‘ کے بعد کہا ہے کہ اس منحرف سعودی صحافی کی گمشدگی اور مبینہ قتل کا ذمے دار ایک ’قاتل گروہ‘ ہے۔
ساٹھ سالہ سعودی شہری، امریکا میں مقیم منحرف صحافی اور اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ جنرل میں جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ ترک میڈیا کے مطابق خاشقجی سعودی قونصل خانے کے اندر تو گئے تھے لیکن اس بارے میں کوئی شواہد نہیں کہ وہ وہاں سے زندہ باہر بھی نکلے تھے۔
ترک اور کئی دیگر غیر ملکی میڈیا اداروں کا الزام ہے کہ خاشقجی کو مبینہ طور پر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ترک تفتیشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسی سلسلے میں آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز بھی موجود ہیں۔
سعودی حکومت اب تک ان الزامات کی بھرپور تردید کرتی آئی ہے۔ تاہم سی این این نے شناخت ظاہر کیے بغیر لیکن دو انتہائی قابل اعتماد ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ سعودی حکومت اب خاشقجی کی موت کی ذمے داری قبول کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ سی این این کے مطابق ممکنہ طور پر سعودی حکام کی طرف سے کہا جائے گا، ’’جمال خاشقجی قونصل خانے میں پوچھ گچھ کے اس عمل کے دوران ہلاک ہو گئے، جس کا انجام معمول کے مطابق نہیں نکلا۔‘‘
اسی بارے میں ایک دوسرے ذریعے نے سی این این کو بتایا کہ سعودی حکام اپنی اس رپورٹ میں، جس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کب جاری کی جائے گی، تسلیم کر لیں گے کہ خاشقجی سے استنبول کے قونصل خانے میں یہ تفتیش اعلیٰ سعودی حکام کی طرف سے اجازت کے بغیر کی جا رہی تھی اور اس کے ذمے دار عناصر کو سزا دی جائے گی۔
’لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے‘
خاشقجی کی گمشدگی اور ان کے مبینہ قتل کی مشترکہ چھان بین کرنے والی ترک اور سعودی ماہرین کی دو ٹیموں نے آج منگل سولہ اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے کے اندر اپنی کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی چھان بین بھی مکمل کر لی، جس دوران کئی نمونے بھی حاصل کیے گئے۔
اس سلسلے میں سب سے تشویشناک پہلو ترک حکام کا یہ خدشہ ہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے۔
ترک صدر کی شاہ سلمان سے گفتگو
جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سعودی عرب کے شاہ سلمان سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کر چکے ہیں، جس دوران صدر ایردوآن کے مطابق شاہ سلمان نے زور دے کر کہا تھا کہ سعودی عرب خاشقجی کی گمشدگی میں ملوث نہیں ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
اس موقع پر شاہ سلمان نے یہ بھی کہا تھا کہ انقرہ اور ریاض کے مابین گہرے دوطرفہ روابط ہیں اور ریاض حکومت نہیں چاہے گی کہ یہ تعلقات کسی بھی وجہ سے متاثر ہوں۔
امریکی وزیر خارجہ سعودی عرب میں
امریکی صدر کی طرف سے جمال خاشقجی کی گمشدگی پر گہری تشویش کے اظہار کے بعد اب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی سعودی حکام کے ساتھ اسی موضوع پر بات چیت کے لیے ریاض پہنچ گئے ہیں۔ ریاض میں پومپیو نے شاہ سلمان سے ملاقات کی۔
ریاض پہنچنے پر پومپیو کا استقبال ان کے سعودی ہم منصب عادل الجبیر نے کیا تاہم اس موقع پر میڈیا سے کوئی بھی بات کرنے سے احتراز کیا گیا۔ پومپیو اپنے اس دورے کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملیں گے۔
م م / ع ح / سی این این، روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔