سعودی عرب نے اقوام متحدہ کو بتایا ہےکہ ریاض حکومت جلاوطن سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M Yildrim
اشتہار
جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل میں سعودی عرب کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر ہونے والی بحث میں ریاض حکومت نے اپنے ہاں اس بابت صورت حال کا دفاع کیا۔
جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے گزشتہ پانچ برس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے متعلق نظرثانی کی سیشن میں سعودی وفد کے سربراہ بندر العیبان کو دیگر سفارت کاروں کی جانب سے اس مطالبے کا سامنا ہے کہ سعودی حکومت خاشقجی کے قتل کی شفاف اور قابل بھروسا تحقیقات کروائے۔ اس کے علاوہ عالمی برادری کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ریاض حکومت کے ناقدین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
عالمی سماعت کے دوران العیبان نے کہا کہ بادشاہ سلمان نے سعودی پبلک پراسیکیوٹر کو ہدایات جاری کی ہے کہ وہ ملکی قوانین کے مطابق خاشقجی قتل کے درپردہ تمام تر حقائق سامنے لائیں اور تمام ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دیں۔ اس بیان میں العبیان نے تاہم خاشقجی قتل کے بعد حراست میں لیےگئے 18 افراد سے متعلق کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
پیر کے روز خاشقجی کے بیٹے نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے والد کی نعش اہل خانہ کے حوالے کی جائے۔ خاشقجی کی بابت کہا جا رہا ہےکہ انہیں سعودی قونصل خانے میں قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو مسخ کر دیا گیا تھا۔
سعودی حکام نے ابتدا میں خاشقجی سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا تھا، تاہم بعد میں ریاض حکومت نے اس قتل کا تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک ’سنگین غلطی‘ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’روگ عناصر‘ نے خاشقجی کو قونصل خانے میں ایک جھگڑے میں قتل کیا۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں سعودی عرب سے متعلق سماعت میں آسٹریلیا، بیلجیم، کینیڈا اور اٹلی کے مندوبین نے بحث میں حصہ لیا اور مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں قابل بھروسا اور تفصیلی تحقیقات ضروری ہیں۔ آسٹریلوی مندوب نے کہا کہ ایسی رپورٹ کہ اس قتل کی تیاری کی گئی تھی، ایک انتہائی خطرناک بات ہے۔
واضح رہے کہ سعودی وفد کی قیادت کرنے والے العبیان سعودی عرب میں انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاض حکومت ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کر رہی ہے۔