سعودی عرب: خاکوں کی مذمت، پیرس کے خلاف مطالبے کی حمایت نہ کی
27 اکتوبر 2020
سعودی عرب نے فرانس اور کئی مسلم ممالک کے مابین کشیدگی کے پس منظر میں پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی ہے۔ تاہم ریاض حکومت نے کئی دیگر مسلم ممالک کے فرانس کے خلاف اقدامات کے مطالبے کی حمایت نہیں کی۔
اشتہار
سعودی عرب دنیا کا تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے اور خلیج کے خطے کی سب سے بڑی سیاسی اور اقتصادی طاقت بھی۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے دو مقدس ترین مقامات بھی سعودی عرب ہی میں ہیں۔
اس پس منظر میں دنیا کے متعدد مسلم اکثریتی ممالک اور مغربی دنیا کی نظریں اس طرف لگی ہوئی تھیں کہ یورپی یونین کے رکن ملک فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت اور پھر اسی تناظر میں فرانس اور ترکی کے مابین پیدا ہونے والے سیاسی تنازعے کو سامنے رکھتے ہوئے ریاض حکومت کیا موقف اختیار کرتی ہے۔
اس سوال کا جواب آج منگل ستائیس اکتوبر کو اس وقت مل گیا جب سعودی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ یہ حوالہ بظاہر اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ پیرس میں اپنی کلاس میں آزادی اظہار رائے کا حوالہ دے کر پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے والے جس فرانسیسی ٹیچر کا ایک نوجوان مسلم حملہ آور نے سر قلم کر دیا تھا، ریاض حکومت اس کے اس وحشیانہ قتل کی غیر مشروط مذمت کرنا چاہتی تھی۔
ساتھ ہی ریاض میں وزارت خارجہ کے جاری کردہ اس بیان میں، جو سعودی عرب کے سرکاری میڈیا میں بھی شائع ہوا، یہ بھی کہا گیا، ''آزادی اظہار اور ثقافت کو ایسے احترام، باہمی برداشت اور امن کی وجہ بننا چاہیے، جو نفرت، تشدد اور انتہا پسندی جیسے رویوں کے تدارک میں مدد دے سکیں۔‘‘
مسلم ممالک کے فرانس کے خلاف اقدامات کے مطالبے کی حمایت سے پرہیز
مختلف خبر رساں اداروں نے لکھا ہے کہ سعودی حکومت نے فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کی مذمت تو کی ہے لیکن دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو ریاض حکومت نے اس موضوع پر ترکی اور فرانس کے مابین پیدا ہونے والے سیاسی تناؤ میں دونوں میں سے کسی ایک کی بھی یکطرفہ طور پر حمایت نہیں کی اور دوسرے یہ کہ کئی مسلم اکثریتی ممالک کے اس مطالبے میں بھی ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی کہ اس معاملے میں مل کر فرانس کے خلاف کوئی اقدامات کیے جانا چاہییں۔
انہی خاکوں کی وجہ سے پیرس اور انقرہ کے مابین کھچاؤ کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ترک صدر ایردوآن نے فرانسیسی صدر ماکروں کے بارے میں جو کچھ کہا، اسے فرانس کے علاوہ پوری یورپی یونین نے بھی پسند نہ کیا اور اس پر سخت الفاظ میں ردعمل ظاہر کیا گیا۔ پھر فرانس نے ترکی سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا۔
اسی تنازعے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کل پیر کے روز ترک صدر ایردوآن نے ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں یہ بھی کہہ دیا کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں بھی، جہاں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹس میں صدر ماکروں کے ان خاکوں سے متعلق موقف کی مخالفت کی تھی، ملکی پارلیمان نے ایک ایسی قرارداد بھی منظور کر لی ہے، جس میں اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پیرس متعینہ پاکستانی سفیر کو واپس بلا لے۔
م م / ک م (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
پیرس میں دہشت گردی کی رات
پیرس میں دہشت گردی کی سلسلہ وار کارروائیوں کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک اور دو سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی رہنماؤں نے ان حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے پیرس کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
منظم حملے
پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ان منظم سلسلہ وار حملوں میں پیرس میں اور اس کے گرد و نواح میں سات مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد دو سو ہے، جن میں سو کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget
خوف و ہراس
پیرس کے باتاکلاں تھیئٹر میں مسلح افراد نے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جہاں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سکیورٹی فورسز نے اس تھیئٹر کو بازیاب کرا کے زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Valat
خون ریزی اور بربریت
سکیورٹی فورسز نے باتاکلاں تھیئٹر کا محاصرہ کرتے ہوئے جمعے کی رات مقامی وقت کے مطابق ایک بجے اسے مسلح افراد کے قبضے سے آزاد کرایا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے اپنی پرتشدد کارروائیوں کے دوران ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کیے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب دھماکے
پیرس کے شمال میں واقع نیشنل فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب ہونے والے تین دھماکوں میں کم ازکم پانچ افراد مارے گئے۔ جمعے کی رات جب یہ حملے کیے گئے، اس وقت جرمن قومی فٹ بال ٹیم فرانسیسی ٹیم کے خلاف ایک دوستانہ میچ کھیل رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Ena
فرانسیسی صدر اولانڈ سکتے کے عالم میں
جب ان حملوں کی خبر عام ہوئی تو فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ فٹ بال اسٹیڈیم میں جرمنی اور فرانس کے مابین کھیلے جانا والا میچ دیکھ رہے تھے۔ بعد ازاں اولانڈ نے ان سلسلہ وار حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے ایک مختصر نشریاتی پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Marchi
سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی
ان حملوں کے فوری بعد پیرس میں سکیورٹی انتہائی الرٹ کر دی گئی۔ پندرہ سو اضافی فوجی بھی پولیس کی مدد کے لیے تعینات کیے جا چکے ہیں۔ حکام نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تمام افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Tribouillard
فرانسیسی شہری سوگوار
ان حملوں کے بعد فرانس سوگ کے عالم میں ہے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان پُر تشدد واقعات کے اختتام تک کم از کم 8 حملہ آور ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Ph. Wojazer
عالمی برادری کی طرف سے اظہار افسوس
عالمی رہنماؤں نے پیرس حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان حملوں کو دہشت گردی کی سفاک کارروائی قرار دیا ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
امدادی کارروائیاں اور بے چینی
فرانسیسی میڈیا کے مطابق ان حملوں کے بعد پیرس میں سکیورٹی اہل کار اور امدادی ٹیمیں فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئیں۔ سکیورٹی اہل کاروں نے جمعے کی رات خوف و ہراس کے شکار لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے میں مدد بھی کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
امریکی صدر اوباما کا پیغام
پیرس حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ حملے پیرس یا فرانس پر نہیں ہوئے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف حملے ہیں۔ انہوں نے پیرس حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مشکل وقت میں واشنگٹن اس کے ساتھ ہے۔
تصویر: Reuters/Ch. Platiau
میرکل کا اظہار یک جہتی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ پیرس میں ہوئے ان حملوں کے نتیجے میں شدید دھچکے کا شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ برلن حکومت پیرس کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔