سعودی عرب: خواتین پہلی مرتبہ انتخابی مہم میں
27 نومبر 2015مردوں کے برتری والے سعودی معاشرے میں انتخابات میں خواتین کی شمولیت کو عوامی سطح پر بہتر نمائندگی کے سمت میں ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
آئندہ بلدیاتی انتخابات میں قریب نو سو خواتین امیدوار شرکت کر رہی ہیں، جب کہ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ خواتین ووٹرز اس سلسلے میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گی۔
قطیف شہر میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی نسیمہ الصدہ کا کہنا ہے، ’’اگر ہم اپنے ملک کو ترقی دینا چاہتے ہیں اور اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں خواتین کو فیصلہ سازی کی سطح پر لانا ہو گا۔‘‘
سعودی عرب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد 12 دسمبر کو ہو رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب میں کابینہ میں کوئی خاتون شامل نہیں اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں خواتین کو ڈرائیونگ تک کی اجازت نہیں۔ اس کے علاوہ انہیں سفر، کام یا شادی کے لیے بھی اپنے اہل خانہ سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خواتین کے حقوق میں رفتہ رفتہ اضافے کے باوجود ان پر اب بھی بے شمار پابندیاں عائد ہیں۔ سابق سعودی بادشاہ عبداللہ نے سن 2005ء میں بلدیاتی انتخابات متعارف کروائے تھے اور انہوں نے ہی طے کیا تھا کہ خواتین کب ان انتخابات میں حصہ لے سکیں گی۔
سن 2013ء میں کچھ خواتین کو کابینہ کے لیے مشاورتی کردار ادا کرنے والی شوریٰ کونسل کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
شاہ عبداللہ کا انتقال رواں برس کے آغاز میں ہو گیا تھا اور ان کے بعد شاہ سلمان کو بھی انتخابات کے لیے طے کردہ اس شیڈول پر عمل کرنا پڑا۔
اے ایف پی کے مطابق دیگر خلیجی ممالک میں خواتین کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوئے کئے برس گزر چکے ہیں، تاہم یہ پہلا موقع ہو گیا کہ سعودی خواتین کو بھی حق رائے دہی حاصل ہو گا۔
اے ایف پی کے مطابق خواتین کو ووٹنگ کا حق ملنے کے باوجود بہت کم خواتین نے خود کو ووٹنگ کے لیے رجسٹرڈ کروایا ہے۔
سعودی الیکٹورل کمیشن کے مطابق 284 کونسلز کے لیے سات سو امیدوار میدان میں اتر رہے ہیں، جن میں نو سوخواتین شامل ہیں۔