انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سعودی عرب میں گزشتہ روز جن سینتیس افراد کو سزائے موت دی گئی ہے، ان میں سے کم از کم تینتیس ملک کی شیعہ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔
اشتہار
ہیومن رائٹس واچ ( ایچ آر ڈبلیو) کے محقق ایڈم کوگل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے تینتیس کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔‘‘ ایچ آر ڈبلیو کے مطابق جن افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا ہے، ان میں عبدالکریم الہوج بھی شامل ہیں۔ گرفتاری کے وقت الہوج کی عمر سولہ برس تھی۔
اس تنظیم کے مطابق ان میں سے گیارہ کو ایران کے لیے جاسوسی کرنے جبکہ کم از کم چودہ کو حکومت مخالف مظاہروں میں ملوث ہونے کے جرم میں یہ سزائیں سنائی گئی تھیں۔ یہ مظاہرے2011ء اور 2012ء میں ملک کے مشرقی صوبے میں ہوئے تھے۔
انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے کہ جن افراد کو سزائے موت دی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر شیعہ تھے۔ ایمنسٹی کے مطابق، ’’انہیں غیر شفاف انداز میں چلنے والے ایک ایسے مقدمے میں قصور وار قرار دیا گیا، جو بین الاقوامی معیارات کے خلاف تھا اور تشدد کے ذریعے ان سے اقبال جرم کرایا گیا تھا۔‘‘
سعودی وزارت داخلہ کے مطابق ان افراد پر فرقہ واریت کو فروغ دینے جیسے الزامات تھے اور ان سعودی شہریوں کو 'دہشت گردی‘ کے واقعات میں ملوث ہونے کے جرم میں موت کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Tsuno
10 تصاویر1 | 10
مزید یہ کہ ان مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد دارالحکومت ریاض، مکہ، مدینہ، وسطی صوبے قاسم اور اُس مشرقی صوبے میں کیا گیا، جہاں ملکی شیعہ اقلیت کی آبادی کافی زیادہ ہے۔
ایمنسٹی کے مشرق وسطی کے ریسرچ ڈائریکٹر لن مالوف نے کہا کہ موت کی یہ سزائیں اس امر کی جانب ایک اور خوفناک اشارہ ہیں کہ کس طرح موت کی سزا کو شیعہ اقلیت کے اندر ناقدانہ سوچ رکھنے والوں کو کچلنے کے لیے ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی ( ایس پی اے) کے مطابق رواں برس کے دوران اب تک ایک سو سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ سعودی عرب میں شیعہ آبادی کی تعداد کے حوالے سے کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم کہا جاتا ہے کہ 32 ملین کی آبادی والے اس ملک میں دس سے پندرہ فیصد شیعہ آباد ہیں۔