سعودی عرب: غیر شادی شدہ جوڑوں کو ایک ساتھ قیام کی اجازت
6 اکتوبر 2019
سعودی سرکاری اہلکاروں کے مطابق اب غیر ملکی غیر شدہ جوڑے بھی ہوٹلوں میں ایک ساتھ قیام کر سکیں گے۔ ایک ہی کمرے میں رہنے کے لیے اب انہیں خود کو شادی شدہ ثابت کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔
اشتہار
غیر ملکیوں کے لیے سیاحت کے دروازے کھولتے ہوئے سعودی حکومت ایسے بہت سے قوانین میں نرمی کر رہی ہے، جن کی وجہ سے غیر ملکی خواتین اور مردوں کو الگ الگ رہنا پڑتا تھا۔ تاہم اب سعودی عرب کا دورہ کرنے والے کسی بھی غیر ملکی جوڑے کو ہوٹل میں قیام کی خاطر شادی شدہ ہونے کی سند پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان اصلاحات کا اطلاق صرف غیر ملکیوں پر ہو گا۔
سیاحت اور قومی ثقافتی ورثے کے سعودی کمیشن نے بتایا،''کسی بھی ہوٹل میں قیام کے وقت تمام سعودی شہریوں سے ان کی خاندانی شناخت یا ان کے ازدواجی رشتے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تاہم یہ قانون غیر ملکی سیاحوں کے لیے نہیں۔‘‘
قدامت پسند سعودی عرب میں سخت اسلامی قوانین نافذ ہیں، جن کی رو سے شادی سے قبل جنسی روابط یا پر پابندی ہے۔ تاہم ابھی حال ہی ریاض حکومت نے غیر ملکی سیاحوں کے لیے آن لائن ویزا کی سہولت مہیا کی ہے۔
سعودی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ سن 2030 تک مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد ایک سو ملین تک پہنچ جائے۔ سعودی حکام نے اسے ایک تاریخی موقع قرار دیا ہے۔
سعودی عرب میں اس دوران کئی شعبوں میں اصلاحات کی جا چکی ہیں۔ جیسا کہ 2018ء میں خواتین کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا لی گئی تھی اور اس سال کے آغاز سے خواتین کو ملک سے باہر جانے کے حق بھی دیا گیا تھا۔
خواتین تنہا کمرہ لے سکتی ہیں
اس دوران سعودی حکام نے ایک اور پابندی بھی ختم کر دی۔ اب خواتین بھی تنہا ہوٹل کا کمرہ کرائے پر لے سکتی ہیں اور اس کے لیے انہیں کسی مرد سر پرست کی ضرورت نہیں ہو گی۔ محکمہ سیاحت کے مطابق،'' تمام خواتین، جن میں سعودی شہری بھی شامل ہیں، تنہا ہوٹل کا کمرہ بک بھی کر سکتی ہیں اور قیام بھی۔ انہیں چیک ان کے وقت صرف شناخت ظاہر کرنا ہو گی۔‘‘
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
11 تصاویر1 | 11
ساتھ ہی سعودی حکومت نے غیر ملکی سیاحوں کے لیے کم از کم انیس سماجی ضوابط بھی جاری کیے ہیں، جن پر انہیں لازمی طور پر عمل کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق عوامی مقامات پر 'غير مہذب، بد تميزی يا بد تہذيبی‘ کے زمرے ميں آنے والے عوامل سرزد کرنے والے افراد کو جرمانے کی سزائيں سنائی جا سکتی ہيں۔
پچاس ريال سے شروع ہو کر زیادہ سے زیادہ جرمانہ چھ ہزار ريال ہے۔ اس فہرست ميں عوامی مقامات پر کوڑا کرکٹ پھينکنا، تھوکنا، قطار توڑ کر آگے بڑھنا، لوگوں کی بلا اجازت تصاوير يا ویڈيوز بنانا اور نماز کے وقت پر ميوزک بھی بجانا شامل ہيں۔