سعودی عرب: فوجی چیف آف اسٹاف سمیت اعلیٰ فوجی اہلکار برطرف
شمشیر حیدر Reuters, dpa
27 فروری 2018
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے ملکی فوج کے سربراہ سمیت کئی اہم فوجی کمانڈروں اور وزارت دفاع سمیت کئی وزارتوں میں تعینات اہم اہلکاروں کو برطرف کر دیا جب کہ ایک خاتون کو ملکی نائب وزیر کے عہدے پر بھی تعینات کیا گیا۔
اشتہار
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق ملکی مسلح افواج اور کئی اہم حکومتی اداروں میں کی جانے والی ان برطرفیوں اور نئی تقرریوں کا اعلان پیر چھبیس فروری کی شب جاری کیے گئے ایک شاہی فرمان کے ذریعے کیا گیا۔ شاہ سلمان کے جاری کردہ شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات وزارت دفاع کی نئے وژن کے تحت تنظیم نو کے تناظر میں کیے گئے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
جن اہم افسروں کو برطرف کیا گیا ہے ان میں سعودی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل عبدالرحمان بن صالح البنیان بھی شامل ہیں۔ جنرل صالح البنیان اب شاہی عدالت کے مشیر کے طور پر کام کریں گے۔ ان کی جگہ جنرل فیاض بن حامد الرویلی کو نیا چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا ہے۔
کیا سعودی عرب بدل رہا ہے ؟
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔
شاہ سلمان کے حکم پر چیف آف اسٹاف، بری فوج اور فضائیہ کے سربراہان کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ میں بھی اعلیٰ عہدوں پر رد و بدل کیا گیا ہے۔ ایس پی اے نے مزید بتایا ہے کہ کئی صوبوں میں سعودی فرمانروا کے مشیروں سے بھی ان کی ذمہ داریاں واپس لے لی گئی ہیں۔ تاہم ان تبدیلوں کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
سعودی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ایسے وقت کی گئی ہیں جب کہ سعودی قیادت میں عرب اتحاد کی خطے کے غریب ترین ملک یمن میں جاری فوجی کارروائیاں ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ یمن جنگ کے دوران اب تک دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور سعودی فضائی حملوں میں عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے باعث سعودی عسکری اتحاد کو عالمی سطح پر تنقید کا بھی سامنا ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کا مقصد ملک میں نوجوانوں کو اہم عہدوں پر تعینات کرنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان تبدیلیوں کے پیچھے بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہی کارفرما ہیں جنہوں نے حالیہ عرصے کے دوران اس قدامت پسند ملک میں کئی اصلاحات بھی متعارف کرائی ہیں۔
ملک میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے جیسی اصلاحات کے بعد ایک خاتون کی نائب وزیر کے عہدے پر تعیناتی بھی بظاہر محمد بن سلمان کے ایجنڈے ہی کی کڑی ہے۔
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔