سعودی سپریم کورٹ نے کوڑوں کی سزا ختم کر دی ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق مجرمان پر اب کوڑے برسانے کے بجائے انہيں قید میں رکھا جائے گا يا پھر ان پر جرمانے عائد کيے جائيں گے۔
اشتہار
سعودی عرب ميں سزا کے طور پر کوڑے مارنے کے عمل کو ترک کر ديا گيا ہے۔ سعودی ہيومن رائٹس کميشن نے اس بارے ميں اطلاع ہفتے پچيس اپريل کو دی۔ کميشن نے اسے شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے جاری اصلاحاتی عمل کا حصہ قرار ديا۔ سعودی عرب ميں ماضی میں قیدیوں کو کوڑے مارنے کی سزا پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے کڑی تنقید کی جاتی رہی ہے۔
سعودی عرب ميں کوڑے مارنے کی سزا ملکی عدالت عظمی کی جانب سے ختم کی گئی ہے۔ سپريم کورٹ کے بيان ميں کہا گيا ہے کہ يہ اصلاحات، سزا اور انسانی حقوق سے متعلق بين الاقوامی تضاضے پورے کرنے اور سعودی عرب کو عالمی معيارات تک پہنچانے کے ليے جاری ہيں۔
کیا سعودی عرب بدل رہا ہے ؟
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔
رائف بداوی 2012ء سے سعودی عرب میں قید ہیں۔ انہیں مذہب اسلام کے بارے میں قدامت پسندانہ رویوں کی تضحیک اور سعودی عرب میں آزادی اظہار اور آزادی مذہب کی حمایت جیسے اقدامات کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں ابتداء میں ان الزامات کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم بعد میں دس برس قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا میں تبدیل کر دیا گیا۔ بداوی کا کيس عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔
بداوی کی قید اور کوڑوں کی سزا کو عالمی برادری کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری طرف آزادی اظہار کے لیے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں کئی بین الاقوامی ایوارڈز بھی ديے جا چکے، جن میں 'سخاروف پرائز‘ اور ڈی ڈبلیو کا 'بوب ایوارڈ‘ بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب ميں کوڑے مارنے کی سزا کے خاتمے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن عبداللہ الحامد کی سعودی جیل میں موت کی خبر منظر عام پر آئی۔ الحامد کو سن 2013 میں گیارہ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ الحامد کی موت کی خبر کے بعد سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ایک مرتبہ پھر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔