کورونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل اومیکرون کے پھیلاؤ کے حوالے سے دنیا بھر میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔ تیزی سے پھیلنے والے اس ویرینئٹ سے متاثرہ ایک مریض کی سعودی عرب میں بھی تشخیص ہوئی ہے۔
تصویر: DADO RUVIC/REUTERS
اشتہار
سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی کے مطابق بدھ یکم دسمبر کو ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ شخص میں نئے ویرینٹ کی شناخت ہوئی ہے۔ متاثرہ شخص ایک سعودی شہری ہے جو ایک شِمالی افریقی ملک سے سعودی عرب پہنچا تھا۔ مذکورہ شخص اور اس کے ساتھ سفر کرنے والوں کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ خلیجی عرب ممالک میں اومکیرون ویرینئٹ کا یہ پہلا معلوم کیس ہے۔ یاد رہے کہ سخت سفری پابندیوں کے بعد سعودی عرب نے حال ہی میں چھ مختلف ممالک سے مسافروں کے براہ راست سعودی عرب آنے پر لگی پابندی کا خاتمہ کیا تھا۔ پاکستان کے علاوہ ان میں بھارت، مصر، انڈونیشیا، برازیل اور ویتنام شامل ہیں۔ قبل ازیں ان ممالک سے آنے والے مسافروں کو سعودی عرب میں داخلے سے پہلے کسی تیسرے ملک میں 14 دن گزارنا لازمی تھے۔
سعودی عرب نے اب کئی ممالک کی براہ راست پروازوں پر پابندی عائد کی ہے۔تصویر: Imago/Rüdiger Wölk
اومیکرون کے پھیلاؤ کے تناظر میں نئی سفری پابندیاں
کورونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل اومیکرون کے پہلے کیس کی تشخیص کے بعد سعودی عرب نے اب کئی ممالک کی براہ راست پروازوں پر پابندی عائد کی ہے جن میں وہ تمام افریقی ممالک شامل ہیں جن میں اومیکرون ویریئنٹ کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس نئے وائرس کی شناخت اب تک بیس سے زائد ممالک میں ہوچکی ہے۔
سفری پابندیوں پر افریقی ممالک ناخوش
دو ہفتے قبل جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس کی ایک نئی تبدیل شدہ قسم اومیکرون کا پتہ چلایا گیا تھا۔ وائرس کی اس نئی قسم کی شناخت کے بعد دنیا کے زیادہ تر ممالک نے افریقہ کے ان ممالک سے آنے والے مسافروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان سفری پابندیوں کے جواب میں ان افریقی ممالک کا کہنا ہے کہ اس نئے وائرس کی تشخیص کے لیے انہیں سراہا جانا چاہیے نہ کہ سزا ملنی چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کے حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ انسان کے مدافعتی نظام کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت تیزی سے اپنی شکل تبدیل کرتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس نئی قسم پر ویکسین بھی اثر انداز نہیں ہوتی۔ تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات دو سے چار ہفتوں میں متوقع ہیں کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں اس ویریئنٹ اور اس کے اثرات کے بارے میں اعداد وشمار جمع کیے جا رہے ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیا میں کووڈ انیس میں اضافہ، کنٹرول میں مشکلات
اس ریجن کے ممالک میں کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ نے شدید آفت مچا رکھی ہے۔ کئی ملکوں کو وبا کنٹرول کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اس میں سب سے اہم اور بڑی وجہ صحت کا کمزور نظام بھی ہے۔
تصویر: Wisnu Agung Prasetyo/ZUMA/picture alliance
تیسری لہر
جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کو گزشتہ چند ماہ سے کووڈ وبا کی نئی لہر کا سامنا ہے۔ اس علاقے کے ممالک لاؤس اور ویتنام شدید متاثر ہیں۔ سن 2020 میں یہ دونوں ممالک وبا کی شدت سے بچ گئے تھے لیکن اب انہیں بڑھتے انفیکشن کی شدت کا مقابلہ ہے۔ اس ریجن میں سب سے زیادہ متاثر ملک انڈونیشیا ہے۔
تصویر: Agung Fatma Putra/ZUMA/picture alliance
انڈونیشیا میں افراتفری کی صورت حال
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے مسلمان ملک مین کووڈ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تہتر ہزار سے تجاوز کرچُکی ہے۔ وبا کی شروع ہونے کے بعد اٹھائیس لاکھ افراد کو انفیکشن ہو چکا ہے۔ اس وقت اس ملک میں انفیکشن کی شرح بھارت اور برازیل سے زیادہ ہے۔ شہریوں کو آکسیجن سیلنڈرز اور ہسپتالوں میں بیڈز کی کمیابی کا سامنا ہے۔
تصویر: Timur Matahari/AFP/Getty Images
ڈیلٹا پھیلتا ہوا
انڈونیشی نظام صحت اور ہسپتالوں کو کووڈ مریضوں کی غیر معمولی تعداد کا سامنا ہے۔ دو سوستر ملین کی آبادی والے ملک کو مئی میں روزوں کے اختتام اور عید کے موقع پر لاکھوں افراد کے سفر اختیار کرنے کے بعد کورونا انفیکشن کی شدت کا سامنا ہے۔ اس انفیکشن کی لہر میں ڈیلٹا کی افزائش بہت زیادہ ہوئی۔
تصویر: Wisnu Agung Prasetyo/ZUMA/picture alliance
بہتر سے بدتر
سن 2020 میں ویتنامی حکام نے کورونا وائرس کو محدود کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اب وائرس کی ڈیلٹا ویریئنٹ کی افزائش نے صورت حال بدل دی ہے۔ اس ویریئنٹ سے انفیکشن کی شرح بڑھ چکی ہے۔ ویتنامی حکومت نے سارے جنوبی علاقے میں دو ہفتوں کا لاک ڈاؤن لگا رکھا ہے۔ دوسری جانب انفیکشن میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Luke Groves/AP/picture alliance
حکام کے خلاف ناراضی
تھائی مظاہرین وزیر اعظم پرائیتھ چن اوچا کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ کووڈ انیس وبا کو کنٹرول کرنے کے مناسب انتظامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔ ہسپتالوں پر مریضوں کی بڑھتی تعداد سے دباؤ بھی بڑھ چکا ہے۔ اس ملک میں اپریل کے بعد انفیکشن بڑھنے کے ساتھ ہلاکتیں بھی بڑھی ہیں۔
کورونا وبا سے تھائی سیاحتی صنعت شدید متاثر ہوئی ہے۔ بنکاک اور دیگر صوبوں میں کووڈ انیس کی افزائش جاری ہے اور حکام اس کو قابو کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حکومت مقبول سیاحتی جزیرے پھوکٹ کو دوبارہ کھولنے کی کوشش میں ہے تا کہ ملکی اقتصادیات کو سنبھالا مل سکے۔
تصویر: Sirachai Arunrugstichai/Getty Images
ویکسینیشن سست
تھائی حکومت ویکسین حاصل کرنے میں سست رہی ہے۔ اس ملک میں اہم ملازمین کو رواں برس فروری میں ویکسین لگانی شروع کی گئی۔ جون سے بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے کی مہم شروع ہوئی۔ اس میں ایسٹرا زینیکا اور چینی سائنو ویک ویکسینز شامل تھیں۔ ویکسین لگانے کا سلسلہ سست اور ناقص قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: Soe Zeya Tun/REUTERS
مایوسی میں اقدامات
ملائیشیا کو کووڈ لاک ڈاؤن کی مشکل کا سامنا ہے۔ لوگ مدد کے منفرد طریقے اپنا رہے ہیں۔ ان میں ایک گھر پر سفید جھنڈا لہرا رہا ہے کہ یعنی اس گھر والوں کو مدد درکار ہے۔ سفید جھنڈا لہرانے کو سوشل میڈیا پر بھی تشہیر ملی ہے۔ کووڈ انفیکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے ملائیشیا میں یکم جون سے سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے۔
تصویر: Lim Huey Teng/REUTERS
کووڈ اور بغاوت
میانمار میں فوجی بغاوت نے عوام کی ہیلتھ کیئر پالیسی کو درہم برہم کر دیا ہے۔ کئی ڈاکٹروں نے اپوزیشن کی حمایت میں ہسپتالوں میں نوکری جاری رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ متنبہ کر چکی ہے کہ یہ ملک وائرس پھیلانے والا سب سے تیز رفتار ملک بن سکتا ہے۔ میانمار میں انفیکشن کی شرح زیادہ اور ویکسین لگانے کی رفتار بہت سست ہے۔
تصویر: Santosh Krl/ZUMA/picture alliance
وائرس کے خلاف مدافعت ایک دور کا خواب
جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کی طرح فلپائن کو بھی ویکسین کی محدود فراہمی کا سامنا ہے۔ صحت کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ملک میں شاید سب سے آخر میں کورونا وائرس کے خلاف مدافعتی دوا پہنچے گی۔ ویکسینیشن بہت سست ہے اور اس رفتار سے اگلے دو سالوں میں پچھتر فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کا امکان ہے۔