1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں بین الاقوامی فنکاروں کی دلچسپی

15 دسمبر 2017

سعودی عرب میں بین الاقوامی اداکاروں اور فنکاروں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہالی ووڈ کی کئی مایہ ناز فلموں کے اداکار ، جان ٹراولٹا پہلی بار قدامت پسند ملک سعودی عرب پہنچے ہیں۔

Bildergalerie John Travolta
تصویر: picture-alliance/dpa

ٹراولٹا کی آمد ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سعودی حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ کئی دہائیوں بعد ملک میں پہلا سینما گھر کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سعودی حکومت آئندہ برس کیا کرنا چاہتی ہے؟

سعودی شہری اب فلم دیکھنے سینما گھر بھی جا سکیں گے

اسرائیل اور سعودی عرب: مشرق وسطٰی میں نئے بہترین دوست؟

یہ اعلان، سعودی سلطنت کے اصلاحاتی وژن 2030 کا ایک حصہ ہے اور اس کے تحت زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی انٹرٹینمنٹ تک عوام کو رسائی دی جائے گی۔ وژن 2030 سعودی عرب حکومت کا منصوبہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب کی معیشت کا تیل پر انحصار ختم کیا جائے جس کے لیے ملک کو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش بنایا جائے گا ۔ اس وژن کے تحت کل 800 منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے ۔

ایک آن لائن اخبار’ سبق‘ نے فیس آف ، پلپ فکشن اور گریس جیسی سپرہٹ فلموں کے 63 سالہ اداکار جان ٹراولٹا کی سعودی عرب کی روایتی کافی پیتے ہوئے ایک  تصویر شائع  کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ دو روز کے لیے سعودی عرب پہنچے ہیں۔

سعودی میڈیا کے مطابق جان ٹراولٹا ریاض میں ایک لائیو انٹرویو بھی دیں گے جس میں وہ اپنی شہرت کے سفر کے بارے میں عوام کے سوالوں کا جواب دیں گے۔ اس کے علاوہ وہ شہر کے ممتاز مقامات کا بھی دورہ کریں گے۔  

ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر سعودی خواتین کے ارادے کیا ہیں؟

01:40

This browser does not support the video element.

یاد رہے کہ رواں ہفتے سعودی حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ملک میں سینما گھروں پر عائد 35 سالہ پابندی کا خاتمہ کرتے ہوئے مارچ کے مہینے میں پہلے فلم تھیٹر کا افتتاح کیا جائے گا۔ یہ اقدام سعودی ولی عہد کی جانب سے ملک کوقدامت پرست خیالات رکھنے والوں کے اثرات سے نکال کر ’ معتدل اسلام‘ کی جانب لانے کی کوشش کا حصہ ہے۔

اس سے قبل امریکی ریپ آرٹسٹ، Nelly اور الجیریئن گلوکار چھاب نے جدہ میں ایک کانسرٹ میں یادگار پرفارمنس پیش کی تھی۔ اس سے پہلے سعودی عوام کو اس طرح کی تفریحات سے لطف اندوز ہونے کے لیے دیگر خیلجی ممالک کا رخ کرنا پڑتا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں