سعودی عرب میں ’حلال ڈسکو کلب‘ اور سوشل میڈیا پر رد عمل
13 جون 2019
سعودی شہر جدہ میں اماراتی کلب ’وائٹ‘ کی شاخ شروع کی جا رہی ہے۔ ’حلال ڈسکو‘ کلب میں شراب فروخت نہیں کی جائے گی۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس خبر پر تنقید بھی کی اور تعریف بھی۔
اشتہار
دنیا میں سعودی عرب کا تشخص ایک سخت گیر مذہبی معاشرے کا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے ریاض حکومت اس تاثر کو بدلنے کی کوششوں میں ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت بھی دی گئی اور خواتین کے کھیل کے میدانوں میں جانے پر عائد پابندی بھی ہٹا دی گئی۔
ان اقدامات کے علاوہ اب فنون لطیفہ اور انٹرٹینمنٹ پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ 'سٹیپ فیڈ‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق سعودی شہر جدہ میں ایک کلب کھولا جا رہا ہے۔ کلب میں پارٹیاں تو ہوں گی لیکن الکوحل دستیاب نہیں ہو گی اسی وجہ سے ویب سائٹ نے اس کلب کو 'حلال ڈسکو‘ کا نام دیا۔
جدہ کا یہ کلب متحدہ عرب امارات کے ایک کلب 'وائٹ‘ کی ایک شاخ ہو گا۔ اس سے قبل اماراتی 'کلب چین‘ نے دبئی اور بیروت میں بھی شاخیں موجود ہیں۔ جدہ کی برانچ میں بھی کلب کی برانچوں کی طرح ہی ہو گی اور وہاں رقص و موسیقی کا اہتمام بھی ویسا ہی ہو گا، مگر ایک فرق کے ساتھ، سعودی قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدہ برانچ میں الکوحل فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہو گی۔
ڈی ڈبلیو عربی کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکام نے اب تک اس خبر کی تائید یا تردید نہیں کی تاہم کلب کے منتظم رابطہ کار سیرج ٹراڈ کے مطابق جدہ میں اس کلب کا افتتاح تیرہ جون کے روز ہو گا۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ جدہ میں 'حلال ڈسکو کلب‘ سال بھر کے لیے نہیں بلکہ صرف شہر کے سالانہ فیسٹیول کے دوران کھلا رہے گا۔
سوشل میڈیا پر ردِ عمل
جدہ میں کلب کے افتتاح کی خبریں سامنے آنے کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ #ديسكو_في_جده ٹرینڈ کرنے لگا۔
سوشل میڈیا صارفین نے اس قدامت پسند معاشرے میں کلب کھولے جانے کی تعریف کی اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا، لیکن دونوں طرح کی آرا میں طنز و تفریح کا پہلو بھی نمایاں رہا۔
ایک صارف نے سعودی شہروں کا تقابل کرتے ہوئے لکھا، ''ریاض: فارمولا ای لائیو کنسرٹ۔ جدہ: میری بیئر پکڑنا۔‘‘ صارفین نے اپنے تخیل کا استعمال کرتے ہوئے حلال بار، حلال پول رقص سمیت مختلف طرح کی میمز تک بنا ڈالیں۔
ش ح / ع ا
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔