سعودی عرب میں حکومتی تبدیلیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟
8 مئی 2016ہفتے کے روز سعودی حکومت نے متعدد وزراء کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تبدیلیاں سعودی عرب کے اس وسیع البنیاد وژن 2030ء کا حصہ ہیں، جس کا اعلان دو ہفتے پہلے شاہ سلمان کے بیٹے اور ڈپٹی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے کیا تھا۔
ان حکومتی تبدیلیوں کے بارے میں سعودی عرب کے ایک سابق بینکار اور تجزیہ کار کا کہنا تھا، ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سنجیدہ ہیں۔ یہ درست سمت میں پیش رفت ہے۔ وہ تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
ریاض حکومت نے پیٹرولیم کی وزارت کا نام تبدیل کرتے ہوئے اب اسے توانائی، صنعت اور کان کنی کی صنعت کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس وزارت کا قلمدان تیل کی صنعت سے وابستہ ایک اہم شخصیت خالد الفالح کو سونپا گیا ہے، جو سعودی عرب کی اہم کمپنی آمارکو سے وابستہ ہیں۔
آئل انڈسٹری سے وابستہ کچھ ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ شاہ سلمان دراصل الفالح کی کارکردگی سے خوش تھے، اسی لیے انہیں اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
سن 2009 سے الفالح آمارکو کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ گزشتہ مئی میں ہی انہیں وزیر صحت بنایا گیا تھا۔ قبل ازیں پیٹرولیم کی وزارت علی بن ابراہیمی النعیمی کے پاس تھی۔ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے اس عہدے پر فائز تھے۔
یورپی سفارتی ذرائع کے مطابق شاہ سلمان اب ملک کی ترقی کی خاطر کچھ کرنا چاہتے ہیں، جس مقصد کے لیے انہوں نے پیٹرولیم کی صنعت کے علاوہ بھی دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ پیٹرولیم کی وزارت کو وسعت دے کر اس میں صنعت اور کان کنی کا بھی شامل کر لینا، دراصل اس بات کی عکاسی ہے کہ ریاض اب تیل کے علاوہ توانائی کے دیگر وسائل کو بھی استعمال میں لانا چاہتا ہے۔
اس صحرائی ملک میں شمسی اور ونڈ پاور کے شعبوں میں ترقی کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اب اپنے صنعتی شعبہ جات میں بھی وسعت پیدا کرنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ ریاض حکومت نے فارماسوئیٹکل اور دفاع کے شعبوں کے علاوہ کان کنی میں بھی سرمایہ کاری پر غور کرنا شروع کردیا ہے، جو اس کی اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔