سعودی عرب میں کھانے کا اوسط فی کس ضیاع: 250 کلوگرام سالانہ
16 دسمبر 2019
سعودی عرب میں ایک عام شہری سالانہ جتنی خوراک ضائع کرتا ہے، وہ شرح عالمی فی کس اوسط کے دو گنا سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق اشیائے خوراک کے صرف اس ضیاع کی مالیت ہی تیرہ ارب ڈالر سالانہ کے برابر ہوتی ہے۔
اشتہار
خلیج کی اس قدامت پسند عرب بادشاہت اور تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں اب اس رجحان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ عام شہری کم سے کم کھانا کوڑے میں پھینکیں اور عوامی سطح پر وہاں خوراک کے ضیاع کے لیے ناپسندیدگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
فراخ دلی اور مہمان نوازی کے نام پر ضیاع
خلیج کی عرب ریاستوں میں یہ ثقافتی رجحان مجموعی طور پر بہت زیادہ ہے کہ کھانے کی میز پر یا فرش پر جہاں بھی کھانا کھایا جائے، وہاں رنگ برنگے پکوانوں کے ڈھیر لگا دیے جاتے ہیں۔ اس طرز عمل کو عرب فراخ دلی اور مہمان نوازی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ایسی خوراک کا زیادہ تر حصہ کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں اس سماجی طرز عمل کے خلاف جو لوگ سرگرم ہیں، ان میں سے ایک مشال الخاراشی بھی ہیں،جو ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ کھانے کی ایسی پلیٹوں کو رواج دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں کم کھانا بھی زیادہ نظر آتا یا محسوس ہوتا ہے۔
'کم کھانا بھی زیادہ نظر آتا ہے‘
ایسی پلیٹیں اس طرح ڈیزائن کی گئی ہیں کہ درمیان میں کچھ گہری لیکن اندر سے پچکی ہوئی ایسی پلیٹوں میں جب مثال کے طور پر چاول ڈالے جاتے ہیں، تو پلیٹ کے بیرونی حصے کا پھیلاؤ کم ہونے کے سبب اسے بہت زیادہ نہیں بھرا جا سکتا۔ یوں ایسی کسی بھی پلیٹ میں کھانے کے لیے ڈالا جانے والا کھانا کم ہونے کے باوجود بصری طور پر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
سعودی ریستورانوں میں ایسی پلیٹیں گزشتہ چند برسوں سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ مشال الخاراشی کہتے ہیں کہ اس طرح کھانے کی ضیاع کی شرح 30 فیصد تک تو کم کی بھی جا چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''یہ پلیٹیں ایک ایسے جدت پسندانہ ڈیزائن کے تحت تیار کی گئی ہیں کہ ان کا درمیانی حصہ تہہ سے کچھ ابھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس طرح پلیٹ بھری ہوئی بھی ہو، تو اس میں زیادہ نظر آنے والا کھانا بھی دراصل مقابلتاﹰ کم ہوتا ہے۔‘‘
تین ہزار ٹن چاول کا ضیاع بچ گیا
الخاراشی کے بقول اس طرح گزشتہ چند برسوں کے دوران سعودی عرب میں تین ہزار ٹن سے زیادہ چاول کے ضائع کر دیے جانے سے بچا جا چکا ہے۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''اس طرح ہم نے کھانے پینے سے متعلق فراخ دلی اور مہمان نوازی کی سعودی روایات کا تحفظ کرتے ہوئے کھانے کے ضیاع کے رجحان میں اب تک خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔‘‘
زیادہ تر صحرائی علاقے پر مشتمل سعودی عرب، جہاں قابل زراعت زمین کی شرح بہت کم ہے اور آبی وسائل کی بھی قلت ہے، اپنی آمدنی کے لیے گزشتہ کئی عشروں سے زیادہ تر صرف تیل کی برآمد پر انحصار کرتا آیا ہے۔اب لیکن ریاض حکومت یہ پالیسی بھی اپنا چکی ہے کہ اس عرب بادشاہت کو خام تیل کی برآمدات پر اپنا انحصار کم سے کم کرتے ہوئے ریاستی سطح پر آمدنی کے دیگر اور زیادہ ماحول دوست ذرائع کو فروغ دینا چاہیے۔
مسلمانوں کے لیے دس بہترین ممالک
اس برس کے ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس‘ میں دنیا کے تہتر ممالک کا حلال معیشت، خوراک، فیشن، سفر، ادویات و کاسمیٹکس اور میڈیا کے حوالے سے جائزہ لے کر درجہ بندی کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے لیے دس بہترین ممالک یہ ہیں:
تصویر: Imago/J. Jeske
۱۔ ملائیشیا
ملائیشیا اس برس بھی اس درجہ بندی میں مجموعی طور پر 121 پوائنٹس حاصل کر کے سرفہرست رہا۔ ’اسلامی معیشت‘ کے حوالے سے بھی 189 پوائنٹس کے ساتھ یہ ملک پہلے نمبر پر جب کہ حلال سفر، حلال ادویات و کاسمیٹکس کے حوالے سے کی گئی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker
۲۔ متحدہ عرب امارات
چھیاسی پوائنٹس کے ساتھ متحدہ عرب امارات مسلمانوں کے لیے دوسرا بہترین ملک قرار دیا گیا۔ ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس 2016/17‘ میں متحدہ عرب امارات ’اسلامی معیشت‘ کے حوالے سے دوسرے نمبر پر، جب کہ حلال خوراک، حلال سفر، شائستہ فیشن، اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے پہلے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/Kai-Uwe Wärner
۳۔ بحرین
اس برس کے گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں چھاسٹھ کے اسکور کے ساتھ بحرین تیسرے نمبر پر ہے۔ اسلامی معیشت کے درجے میں بھی 90 پوائنٹس کے ساتھ بحرین تیسرے نمبر پر تاہم حلال خوراک کے اعتبار سے بحرین نویں نمبر پر ہے۔ حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے بحرین تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
۴۔ سعودی عرب
سعودی عرب مجموعی طور پر تریسٹھ پوائنٹس کے ساتھ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ حلال سفر کے حوالے سے سعودی عرب دسویں نمبر پر رہا تاہم شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے اعتبار سے یہ ملک پہلے دس ممالک میں جگہ حاصل نہیں کر پایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
۵۔ عمان
سعودی عرب کا ہمسایہ ملک عمان 48 کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس برس کے ’گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس‘ میں پانچویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب ہی کی طرح عمان بھی شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے اعتبار سے پہلے دس ممالک میں جگہ حاصل نہیں کر پایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۶۔ پاکستان
پاکستان اس انڈیکس میں چھٹے نمبر پر ہے اور اس کا مجموعی اسکور 45 ہے۔ گزشتہ برس کے انڈیکس میں پاکستان پانچویں پوزیشن پر تھا۔ تھامسن روئٹرز کی تیار کردہ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی معیشت کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حلال خوراک کے درجے میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے لیکن حلال سفر، شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے پاکستان پہلے دس ممالک میں شامل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Koene
۷۔ کویت
خلیجی ریاست کویت اس درجہ بندی میں 44 کے مجموعی اسکور کے ساتھ پاکستان سے ایک درجہ پیچھے یعنی ساتویں نمبر پر رہا۔ اسلامی معیشت کی درجہ بندی میں 51 کے اسکور کے ساتھ کویت عمان کے ساتھ مشترکہ طور پر پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۸۔ قطر
قطر کا مجموعی اسکور 43 ہے اور وہ اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال دیگر خلیجی ممالک کی طرح قطر کی اسلامی معیشت اور حلال خوراک کے حوالے سے کارکردگی بھی اچھی رہی۔ سعودی عرب کے برعکس حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے قطر پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۹۔ اردن
عرب ملک اردن 37 پوائنٹس کے ساتھ اس برس کے گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں نویں نمبر پر ہے۔ حلال سفر اور حلال ادویات و کاسمیٹکس کے اعتبار کے اردن کی کارکردگی بہتر رہی تاہم حلال خوراک کے حوالے سے اردن بھی پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل نہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
۱۰۔ انڈونیشیا
گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس میں 36 پوائنٹس کے ساتھ انڈونیشیا دسویں نمبر پر ہے۔ اسلامی معیشت، حلال خوراک اور سفر کے اعتبار سے انڈونیشیا کی کارکردگی اچھی رہی۔ تاہم شائستہ فیشن اور حلال میڈیا و تفریح کے حوالے سے کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک کی طرح نمایاں نہیں رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry
یورپی ممالک شائستہ فیشن اور حلال تفریح میں نمایاں
گلوبل اسلامک اکانومی انڈیکس کے مطابق حلال میڈیا و تفریح کے درجے میں برطانیہ پانچویں، فرانس ساتویں اور جرمنی آٹھویں نمبر ہیں۔ شائستہ فیشن کے حوالے سے پہلے دس ممالک میں اٹلی پانچویں اور فرانس ساتویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
11 تصاویر1 | 11
فی کس سالانہ 250 کلوگرام کھانا کوڑے میں
سعودی وزارت ماحول، پانی اور زراعت کے مطابق سعودی عرب میں تیار اشیائے خوراک کے کوڑے میں پھینک دیے جانے کی فی کس سالانہ شرح دنیا کے باقی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ملکی دارالحکومت ریاض میں اس وزارت کے مطابق ایک عام سعودی شہری سال بھر میں اوسطاﹰ 250 کلوگرام (550 پاؤنڈ) خوراک ضائع کرتا ہے جب کہ عالمی سطح پر یہی فی کس سالانہ اوسط 115 کلوگرام بنتی ہے۔ اس طرح سعودی معیشت کو صرف ضائع کر دی گئی خوراک کی مد میں ہر سال تقریباﹰ 13 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
250 نہیں فی کس 427 کلوگرام سالانہ
جریدے اکانومسٹ کے انٹیلیجنس یونٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں ایک عام باشندہ سالانہ اتنی زیادہ خوراک کوڑے میں پھینک دیتا ہے کہ اس کی شرح ریاض حکومت کے دعووں کے مقابلے میں دراصل کہیں زیادہ بنتی ہے۔
اس جریدے کے مطابق ایک عام سعودی باشندہ ہر سال فی کس 427 کلوگرام کھانا کوڑے میں پھینک دیے جانے کی وجہ بنتا ہے اور اوسط عالمی فی کس شرح کے مقابلے میں یہ وزن تقریباﹰ چار گنا رہتا ہے۔
م م / ع ح (اے ایف پی)
کیا سعودی عرب بدل رہا ہے ؟
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔