ریاستی سرپرستی میں جاری قوم پرستی کی مہم میں سعودی عرب کی خودساختہ حب الوطن ’آن لائن آرمی‘ ناقدین کو ’غدار‘ قرار دیتے ہوئے انہیں نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ ’ڈیجیٹل فورس‘ حکومت کے لیے بھی مسئلہ بن سکتی ہے۔
اشتہار
محمد بن سلمان کے سعودی ولی عہد سلطنت بننے کے ساتھ ہی سعودی عرب میں قوم پرستی کا جذبہ اجاگر کرنے کی مہم شروع کر دی گئی تھی۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کے سخت گیر مذہبی ملک کے تاثر کو 'ہائپر نیشنلزم‘ میں بدلنے کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ڈیجٹل پلیٹ فارمز کا بخوبی استعمال کیا جا رہا ہے۔
دنیا کے متعدد ممالک میں سیاسی بحث و مباحث کو مسخ کرنے کے لیے آن لائن پراپیگینڈے کا استعمال عام سی بات ہے۔ لیکن سعودی عرب میں نام نہاد ڈیجیٹل 'فلائیز‘ (مکھیاں) حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ بروئے کار لا رہی ہیں۔
ان ٹرولز کی پوسٹوں میں سکیورٹی ایجنسیوں کو ٹیگ بھی کیا جاتا ہے۔ ان کی جارحانہ مہم کے نتیجے میں گرفتاریاں بھی عمل میں آتی ہیں اور لوگوں کو ان کے عہدوں سے برطرف کیے جانے کے علاوہ ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گھوسٹ اکاؤنٹس حکومت سے منسلک ہیں، جو شاہی کورٹ کے سابق مشیر سعود القحطانی کی ایک خفیہ پالیسی کے تحت بنوائے گئے تھے۔ القحطانی اکتوبر سن 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد برطرف کر دیے گئے تھے۔
بعد ازاں انہیں 'مسٹر ہیش ٹیگ‘ اور 'لارڈ آف دی فلائیز‘ کے نام سے بھی مخاطب کیا جانے لگا، جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سعودی سلطنت کے دفاع کے لیے 'الیکٹرانک آرمی‘ بھرتی کی تھی۔
تاہم اب کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ گھوسٹ اکاؤنٹس ریاست کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں اور اپنی اتھارٹی کا بے جا استعال کرنے کے قابل بھی ہو سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں مقیم سعودی امور کے ماہر انس شاکر نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ یہ گھوسٹ اکاؤنٹس سعودی قیادت کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئے ہیں لیکن جب یہ زیادہ طاقتور ہوئے تو حکومت ان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش میں ناکام بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے کوشش شروع کر دی ہے کہ اس 'ڈیجیٹل آرمی‘ کو کنٹرول میں ہی رکھا جائے اور ریاستی رٹ برقرار رہے۔
ان ٹرولز کے خطرے کی وجہ سے سعودی عرب میں لبرل طبقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے ٹوئٹر کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے، جو حکومت اور محمد بن سلمان کی اصلاحات پر تعمیری تنقید کرتے تھے۔
عرب دنیا میں ٹوئٹر کے سب سے زیادہ صارفین کا تعلق سعودی عرب سے ہی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر شائع کردہ معلومات کو اپنے مقاصد کے لیے غلط طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ برس سعودی عرب میں ٹوئٹر کے دو ملازمین پر فرد جرم عائد کی گئی تھی کہ وہ سعودی حکومت کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔ ٹوئٹر کمپنی سعودی عرب میں سینکڑوں اکاؤںٹس بلاک بھی کر چکی ہے، جن میں سے متعدد حکومت میڈیا اداروں سے وابستہ تھے۔
تاہم شاکر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو کنٹرول میں لانا ایک مشکل عمل ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ ریاستی رٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھریں گے۔
ع ب / ب ج/ اے ایف پی
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔