ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت شیعہ اقلیت کے خلاف کیے جانے والے نفرت آمیز پراپیگنڈا سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس سنی اکثریتی ملک میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے بھی یہ کام کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے چھبیس ستمبر بروز منگل ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب میں مذہبی اداروں میں معتبر عہدوں پر فائز اہلکاروں کے علاوہ درسی کتب اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے بھی شیعہ مخالف بیانیہ عام کیا جا رہا ہے لیکن ریاض حکومت ان تمام اعمال سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایسے سعودی مذہبی رہنما بھی ناقابل برداشت جذبات کو ہوا دے رہے ہیں، جو سرکاری عہدوں پر براجمان ہیں۔ اس ادارے کے مطابق یہ مذہبی رہنما اکیسویں صدی کے جدید ذرائع مثال کے طور پر ٹوئٹر وغیرہ سے شیعہ برادری کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان مذہبی رہنماؤں کو ٹوئٹر پر لاکھوں افراد فالو کرتے ہیں اور ان کی طرف سے اس طرح کی بیان بازی اشتعال انگیزی کا سبب بن سکتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان مذہبی رہنماؤں کے الفاظ اکثر اوقات ’نفرت پر اکسانے اور امتیازی رویوں‘ کو فروغ دینے کا باعث ہوتے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ سعودی شیعہ کمیونٹی کے بارے میں ان مذہبی رہنماؤں کے توہین آمیز بیانات دراصل انہی سرکاری فتووں اور بچوں کو پڑھائے جانے والی درسی کتب کے نصاب کا آئینہ دار ہیں، جن کے تحت شیعہ مذہبی عقائد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ان دعوؤں کی سچائی ثابت کرنے کی خاطر کئی مثالیں بھی دی ہیں۔ جیسا کہ سعودی حکومت کی شوریٰ کونسل کے سابق رکن الشریف حاتم بن عارف العونی نے اپنے ایک فیس بک پیغام میں قطیف میں سن دو ہزار پندرہ میں ایک شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر کیے گئے بم حملے کی تعریف کی تھی۔ تاہم بعدازاں انہوں نے کسی وضاحت کے بغیر اس پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب میں شیعہ مخالف جذبات عام سی بات ہیں۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔
اسی طرح ستمبر سن دو ہزار سولہ میں موجودہ سعودی مفتی اعظم نے روزنامہ عکاظ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی ’مسلمان نہیں‘ ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب میں اس طرح کے بیانات انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ اس ملک میں ’مرتد‘ کی سزا موت ہے۔
اس کے علاوہ اس خطے میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیزی کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ میں داعش اور طالبان جیسے شدت پسند گروہ پہلے ہی شیعہ افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اگرچہ سعودی حکومت نے ایسے حملوں کی مذمت کی ہے تاہم وہ اس طرح کے تشدد کی محرکات کے سدباب کے لیے کوئی عملی قدم نہیں لے رہی ہے۔ اس تناظر میں ہیومن رائٹس واچ نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے اس اتحادی ملک کو شیعہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی سے روکے۔