سعودی عرب میں غیر ملکی کارکن: روزگار کی سخت شرائط میں نرمی
4 نومبر 2020
سعودی عرب نے اپنے ہاں کئی ملین غیر ملکی کارکنوں کے لیے روزگار کی سخت اور متنازعہ شرائط میں نرمی کا اعلان کیا ہے۔ اب وہاں مہمان کارکن باآسانی ملازمتیں بدل سکیں گے۔ اس فیصلے سے ایک کروڑ سے زائد کارکنوں کو فائدہ ہو گا۔
اشتہار
سعودی دارالحکومت ریاض سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق افرادی قوت کے نائب وزیر عبداللہ بن ناصر ابوثنین نے بدھ چار نومبر کے روز اعلان کیا کہ یہ نرمی ملک میں مہمان کارکنوں سے متعلق روزگار کے شعبے میں اصلاحات کے ایک وسیع تر عمل کا حصہ ہو گی، جس کے ذریعے روزگار کی ملکی منڈی کو مزید پرکشش بنایا جائے گا۔
اس نرمی کا مقصد خاص طور پر ان کئی ملین غیر ملکیوں کے لیے پیشہ وارانہ زندگی کے حالات بہتر بنانا ہے، جن کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں اور جو غیر مقامی باشندے ہونے کی وجہ سے اکثر اپنے آجرین کے ہاتھوں بدسلوکی اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔
کفالت کے نظام کے تحت استحصال
خلیج کی اس قدامت پسند عرب بادشاہت اور تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں غیر ملکی کارکن اکثر اپنی ملازمتوں سے متعلق 'کفالت‘ کے نظام کے تحت کیے جانے والے ان معاہدوں کے باعث ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں، جن میں اصلاحات کے انسانی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے عرصے سے مطالبے کیے جاتے رہے تھے۔
عبداللہ بن ناصر ابوثنین نے صحافیوں کو بتایا کہ ملکی لیبر مارکیٹ میں ان قانونی اصلاحات کا نفاذ 14 مارچ 2021ء سے ہو گا۔ ان اصلاحات کے تحت سعودی عرب میں آئندہ نہ صرف مہمان کارکن اپنی ملازمتیں آسانی سے بدل سکیں گے بلکہ اپنے آجرین کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر بھی جا سکیں گے۔
اشتہار
اب تک کی صورت حال
سعودی عرب میں ابھی تک نافذ قوانین کے تحت کوئی بھی غیر ملکی کارکن اپنے آجر کی مرضی کے بغیر اپنی ملازمت تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ اسے دوران ملازم کو آجر کی تحریری رضا مندی کے بغیر ملک سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی اور مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد کوئی بھی کارکن اپنے آجر کی اجازت کے بغیر ملک سے مستقل طور پر رخصت بھی نہیں ہو سکتا۔ اب لیکن یہ صورت حال بالکل تبدیل ہو جائے گی۔
ان قانونی اصلاحات سے تقریباﹰ 10.5 ملین یا ایک کروڑ سے زائد مہمان کارکن فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ تعداد سعودی عرب کی قومی آبادی کے تقریباﹰ ایک تہائی کے برابر بنتی ہے۔
ان لیبر اصلاحات کے حوالے سے بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ ان کا اطلاق سعودی عرب میں گھروں میں کام کرنے والے ان ملازمین پر نہیں ہو گا، جن کی تعداد تقریباﹰ 3.7 ملین بنتی ہے۔
ایسے ملازمین میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔ اقتصادی جریدے 'عریبین بزنس‘ کے مطابق گھریلو ملازمین کے حالات کار کے حوالے سے ریاض حکومت ان دنوں ایک علیحدہ قانون سازی پر کام کر رہی ہے۔
خلیجی ریاستوں میں تارکین وطن کے بہت مشکل حالات کار
خلیج کی عرب ریاستوں میں گزشتہ کئی عشروں سے بیرون ملک سے آنے والے مجموعی طور پر بیسیوں ملین کارکنوں کے لیے ایسے قوانین نافذ رہے ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ تنقید 'کفالہ‘ کے نظام پر کی جاتی رہی ہے۔
اس نظام کے تحت ہر مہمان کارکن عموماﹰ کسی نہ کسی 'کفیل‘ کی سرپرستی میں کام کرتا ہے اور اس وجہ سے اکثر تارکین وطن کے لیے استحصال سے بچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ کہ کفیل ہی متعلقہ غیر ملکی کارکن کے حوالے سے تمام قانونی امور میں فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔
چند خلیجی ممالک میں حکومتیں 'کفالت‘ کا نظام یا تو بدل رہی ہیں یا اسے بہتر بنا رہی ہیں اور روزگار سے متعلق شرائط کو زیادہ انسان دوست بنایا جا رہا ہے۔ مہمان کارکنوں کے لیے شرائط کار میں نرمی کی اس لہر میں بیرونی حکومتوں اور انسانی حقوق کی ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی بڑی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے تنقید کا بھی ہاتھ رہا ہے۔
سعودی عرب سے کچھ عرصہ قبل خلیجی ریاست قطر نے بھی اپنے ہاں ایسی ہی اصلاحات کا اعلان کر دیا تھا۔ ان اصلاحات کا مقصد بھی وہاں روایتی 'کفالہ‘ نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانا تھا۔ قطر کو 2022ء میں فٹ بال کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا ہے اور وہاں مہمان کارکنوں کے استحصال کی رپورٹیں ماضی میں بار بار ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا موضوع بنتی رہی ہیں۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے پی)
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔