سعودی عرب میں محلات کو لگژری ہوٹلوں میں بدلنے کا منصوبہ
20 جنوری 2022
تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب نے اپنے ہاں کئی محلات کو لگژری ہوٹلوں میں بدل دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ فیصلہ اس عرب بادشاہت کے ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے کیا ہے۔
اشتہار
سعودی دارالحکومت ریاض سے جمعرات بیس جنوری کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس خلیجی ریاست کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ملک میں ہوٹلنگ کے شعبے میں میزبانی کی اعلیٰ ترین پرتعیش سہولیات کی فراہمی ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک میں ایک نئی فرم بھی قائم کر دی گئی ہے۔
مقصد سیاحت کا فروغ
پی آئی ایف کے بیان کے مطابق اس نئے سعودی ادارے کا نام بوتیک گروپ رکھا گیا ہے، جو بندرگاہی شہر جدہ کے الحمرا پیلس اور دارالحکومت ریاض کے طویق پیلس اور ریڈ پیلس نامی محلات کو انتہائی پرشکوہ ہوٹلوں میں بدل دے گا۔ لگژری ہوٹلوں میں بدل دیے جانے کے بعد ان سعودی محلات میں مہمانوں کے رہنے کے لیے 224 پرتعیش کمرے، سُوٹس اور ولاز دستیاب ہوں گے۔
سعودی عرب، جو تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور جس کی معیشت کا اب تک زیادہ تر انحصار تیل کی برآمد پر ہے، چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہاں سیاحت کو فروغ دیتے ہوئے ملکی معیشت کو اتنا متنوع بنا لے کہ 2030ء تک اس کو سیاحتی شعبے سے ہونے والی آمدنی بڑھ کر مجموعی قومی پیداوار کے 10 فیصد کے برابر ہو جائے۔
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔
سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے مطابق ان تین محلات کا پرتعیش ہوٹلوں میں بدل دیا جانا اس عمل کا صرف پہلا مرحلہ ہو گا، جس کے بعد وہاں صحت اور تفریح کی متعدد سہولیات مہیا کیے جانے کے علاوہ لگژری ریستوراں بھی کھولے جائیں گے۔
اس عوامی سرمایہ کاری فنڈ کے پاس 480 بلین ڈالر کے برابر مالی وسائل موجود ہیں اور اس فنڈ کے گورنر یاسر الرمیان کا کہنا ہے کہ بوتیک گروپ کے نام سے اس فنڈ کے تحت ایک نئے ادارے کا قیام ظاہر کرتا ہے کہ اس مالیاتی ادارے کے پاس ''موجود وسائل کو کس طرح ملکی معیشت کے ان حصوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جن کا تیل کی صنعت سے کوئی تعلق نہیں اور جن میں ترقی کے بےتحاشا امکانات موجود ہیں۔‘‘
م م / ک م (روئٹرز، پی آئی ایف)
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔