سعودی عرب میں کئی افراد کو موت کی سزا دینے کی تیاریاں
12 جون 2021یورپی سعودی تنظیم برائے انسانی حقوق (ESOHR) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سعودی حکومت اس وقت کئی افراد کو موت کی سزا دینے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اس کی اہم وجہ کئی موت کی سزا کے منتظر قیدیوں کی آخری اپیلوں پر حتمی فیصلے کسی بھی وقت پر سنائے جا سکتے ہیں۔
سعودی عرب میں سزائے موت میں ڈرامائی کمی، اصل وجوہات کیا؟
ایسے مقید افراد کی کم از کم تعداد ترپن ہے۔ ان میں سے تین افراد کی اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں اور ان میں ایک مصطفیٰ الدرویش بھی ہے۔ موت کی سزا کے منتظر ترپن میں سے پانچ قیدی ایسے ہیں جنہوں نے جرائم کا ارتکاب اُس وقت کیا تھا جب ان کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھیں۔ الدرویش نے بھی جرم اٹھارہ برس سے کم عمر میں کیا تھا۔
شاہی دستخط ضروری
یورپی سعودی انسانی حقوق کی تنظیم کے قانونی مشیر طحہٰ الحاجی کا کہنا ہے کہ کسی بھی قیدی کی موت سزا پر عمل درآمد کے اجازت نامے پر سعودی فرماں روا شاہ سلمان کے دستخط لازمی ہیں۔ الحاجی کئی موت کی سزا کے قیدیوں کی پیروی کر چکے ہیں اور اب جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ایران میں حکومت کے ناقد کو پھانسی
انسانی حقوق کی اہم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، لندن میں قائم قانون حقوق کے ادارے ریپرائیو اور ہیومن رائٹس واچ نے سعودی حکومت سے درخواست کی ہے کہ مصطفیٰ الدرویش کی موت سزا پر نظرچانی کی جائے۔ الدرویش سن 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ الدرویش کو سن 2011/12 میں سعودی حکومت مخالف شیعہ اقلیت کے مظاہروں میں شریک ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت اُس کی عمر سترہ یا اٹھارہ برس سے کم تھی۔
کثیر تعداد میں سزائے موت پر عمل درآمد کا امکان
حقوق کے کارکنوں کو اس بات کی تشویش لاحق ہے کہ وسیع پیمانے پر دی جانے والی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کرنے سے کئی ایسے افراد بھی زد میں آئں گے، جنہوں نے جرائم کم عمری یا ٹین ایج میں سرزد کیا ہو گا۔ اس وقت جیل حکام اور وزارتِ انصاف شاہ سلمان کے فیصلے کے منتظر ہیں۔
سن 2019 میں سعودی عرب میں ایک ساتھ سینتیس مردوں کو موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان میں دو وہ بھی تھے جنہوں نے کم عمری میں جرم کیا تھا۔ اس سے پہلے سن 2016 میں سعودی حکام نے ایک ساتھ سینتالیس قیدیوں کو سزائے موت دی تھی۔ سن 2019 میں اس عرب ملک میں ایک سو چوراسی قیدیوں کو موت کی سزا دی گئی تھی، جو ایک ریکارڈ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گزشتہ برس ستائیس افراد کی سزائے موت پر عمل کیا گیا تھا۔
عالمی اپیلیں نظرانداز، ایرانی پہلوان کو پھانسی دے دی گئی
حکومت مخالفین کو خاموش کرنے کی سزا
سعودی عرب کے نظام انصاف کے بارے میں آگہی رکھنے والے مبصرین کا موقف ہے کہ سزائے موت اصل میں حکومت مخاف عناصر کو خاموش کرنے کا بھی ایک قانونی ہتھیار ہے۔ نوجوان مصطفیٰ الدرویش کا جرم بھی حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونا تھا۔ اس نے اپنے خاندان کو بتایا کہ شدید تشدد کے ساتھ اس سے اعترافات کرائے گئے۔
سعودی صحافی خاشقجی کے قاتلوں کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل
الدرویش پر دس مظاہروں میں شریک ہونے کے الزام کے علاوہ استغاثہ نے مسلح بغاوت اور دہشت گردانہ نیٹ ورک قائم کرنے کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔ اس کے خاندان کے مطابق عدالتی چارہ جوئی کے دوران مناسب وکیل کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔
بین الاقوامی اپیلوں کے تناظر میں الدرویش کا مقدمہ سعودی عرب کی اعلیٰ ترین عدالت میں اب منتقل کر دیا گیا ہے۔ ابھی ریاستی سکیورٹی کی عدالت کا فیصلہ آنا باقی ہے۔
موت کی سز کے منتظر بیشتر افراد شیعہ اقلیت سے
انسانی حقوق کے اداروں اور سرگرم کارکنوں کے مطابق سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کو قریب قرب مرکزی دھارے سے علیحدہ کر کے کنارے لگا دیا گیا ہے۔ اس شیعہ کمیونٹی کی جانب سے آواز اٹھانے والوں کو خاموش کرنے کے لیے سنی اکثریت کی حکومت موت کی سزا کو اپنانے میں گریز نہیں کرتی۔ مصطفیٰ الدرویش کا تعلق بھی کتیف کی شیعہ اقلیت سے ہے۔ دوسری جانب موت کی سزا کے ترپن قیدیوں میں اکثریت کا تعلق اسی اقلیت سے ہے۔ سعودی عرب میں کتیف کا علاقہ شیعہ اقلیت کا گڑھ ہے۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم سعودی عرب کے سفارت خانے نے اس مضمون کے مندرجات پر تبصرے کی ڈی ڈبلیو کی درخواست کا جواب دینے سے گریز کیا ہے۔
کیتھرین شائر (ع ح/ع ت)