سعودی عرب کا دعوی ہے کہ وہ کسی روبوٹ کو شہریت دینے والا پہلا ملک ہے۔ اُدھر سماجی میڈیا پر اس فیصلے کے بعد یہ مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ صوفیہ کو اس ملک میں سعودی خواتین سے زیادہ حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔
اشتہار
انسان نما روبوٹ صوفیہ کو سعودی شہریت دینے کا اعلان رواں ہفتے ریاض میں ایجادات کے حوالے سے ایک کانفرنس میں کیا گیا۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ کسی روبوٹ کو شہریت دینے والی دنیا کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔
صوفیہ کو سن دو ہزار پندرہ میں ہانگ کانگ کی ایک کمپنی ’ہانسن روبوٹکس‘ نے بنایا تھا۔ اس روبوٹ کے موجد ڈیوڈ ہانسن کا دعوی ہے کہ صوفیہ میں مصنوعی ذہانت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور یہ چہروں کی شناخت بھی کر سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق صوفیہ کا سیلیکون سے بنا چہرہ باسٹھ انسانی احساسات کا اظہار کر سکتا ہے۔
سعودی عرب میں ’ فیوچر انوسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس‘ کے موقع پر صوفیہ سے اسٹیج پر ایک انٹرویو کیا گیا۔ اس موقع پر صوفیہ نے انٹرویو کرنے والے اینڈریو روس سورکن کو بتایا،’’ میں ہانسن روبوٹکس کا بنایا ہوا جدید ترین اور عظیم روبوٹ ہوں۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بعض اوقات لوگ عام انسانوں کی نسبت مجھ سے زیادہ بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اسی بات چیت کے دوران سورکن نے صوفیہ کو بتایا کہ اسے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ صوفیہ کو سعودی شہریت دی جا رہی ہے۔ اس پر صوفیہ کا ردعمل کچھ یوں تھا،’’ سعوی عرب کی سلطنت کا شکریہ۔ میں اس اعزاز پر فخر محسوس کر رہی ہوں۔ دنیا میں کسی ملک کی شہریت کا حامل پہلا روبوٹ بننا تاریخی لمحہ ہے۔‘‘
سعودی وزارت برائے ثقافت اور اطلاعات کی جانب سے صوفیہ کو ملکی شہریت دیے جانے کے بیان کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ تاہم سعودی وزارت نے ڈی ڈبلیو کے اس استفسار کا ابھی کوئی جواب نہیں دیا کہ روبوٹ صوفیہ کو کن مراعات سے نوازا جائے گا۔
دوسری جانب ریاض حکومت کی جانب سے یہ اعلان ہوتے ہی سوشل میڈیا صارفین نے اس حوالے سے مزاحیہ تبصرے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ان صارفین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ صوفیہ کو سعودی خواتین سے کہیں زیادہ حقوق دے دیے جائیں، جن کے زندگی کے اہم فیصلے اُن کے مرد سرپرستوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور ان کے لیے حجاب کرنا لازمی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان خواتین کے ساتھ ملک کا عدالتی نظام بھی جانبداری برتتا ہے۔ ٹویٹر صارفین نے صوفیہ کے حجاب نہ پہننے اور سرپرست نہ ہونے پر بھی تبصرے کیے ہیں۔
ہینوور صنعتی میلہ، جہاں روبوٹس راج کرتے ہیں
دنیا کے سب سے بڑے ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں ستّر ممالک سے تعلق رکھنے والی ساڑھے چھ ہزار کمپنیوں نے لاتعداد اسٹالز لگائے ہیں۔ چوبیس تا اٹھائیس اپریل تک جاری رہنے والی اس نمائش میں زیادہ توجہ روبوٹس کو ہی حاصل ہے۔
تصویر: Deutsche Messe AG
روبوٹس ہی روبوٹس
ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں مختلف ہالز میں تا حد نظر روبوٹس ہی نظر آ رہے ہیں۔ کچھ بہت بڑے ہیں تو کچھ چھوٹے۔ لیکن ان میں ایک مشترکہ خصوصیت ضرور ہے، اور وہ یہ کہ یہ سب انسانوں کی مدد کے لیے کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/H. Böhme
میرا کھلونا، آپ کا کھلونا
تصویر میں نظر آنے والا یہ ’دوستانہ روبوٹ‘ لیگو کے ساتھ کھیلنے کا شوقین ہے۔ جرمن کمپنی Schunk مکمل روبوٹس نہیں بناتی بلکہ صرف ان کے ہاتھ تیار کرتی ہے۔ اس کمپنی کی جدید ٹیکنالوجی دنیا بھر میں مشہور ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
صنعتی آئی پیڈ
حالیہ عرصے میں ایپل کمپنی کی ترقی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اب روبوٹس آئی پیڈز کو کو آپریٹ کرنے میں بھی ماہر ہو گئے ہیں۔ ہینوور صنعتی میلے کے سربراہ ژوخن کؤکلر کے مطابق فیکٹریوں میں اب روبوٹس کو آئی پیڈز چلانے کے لیے استمعال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
خبردار! حفاطتی جوتے پہن لیں
آج کل فیکٹریوں میں بہت سے سائن بورڈز آویزاں ہوتے ہیں، جن پر مختلف قسم کی وارننگز اور ہدایات درج ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ تو ان معلومات پر نظر رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم مستقبل قریب میں ہمیں ایسی سمارٹ گھڑیاں میسر ہوں گی، جو ہمیں حفاظتی اقدامات سے باخبر کرتی رہیں گی۔ خاص مقام پر داخل ہوتے ہی فیکٹری ملازم کو اس سمارٹ واچ سے خودکار طریقے سے میسج ملے گا کہ جوتے پہن لیے جائیں۔
تصویر: Comau
تاریخ سے سبق
نت نئی ایجادات تو ہوتی ہی رہیں گی لیکن اس تجرباتی عمل میں ماضی کا مشاہدہ بھی اہم ہے۔ ٹھیک ستّر برس قبل ہینوور میں پہلے ’ایکسپورٹ فیئر‘ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس اکیس روزہ ایونٹ میں بتیس ملین ڈالر مالیت کے برابر ایکسپورٹ کانٹریکٹس پر مذاکرات کیے گئے تھے۔ اس مرتبہ اس تجارتی میلے کے ایڈیشن میں اسی مناسبت سے جرمن کار ساز ادارے فولکس ویگن نے اپنے مشہور زمانہ T1 وین کے جدید ماڈل کی نمائش بھی کی۔
تصویر: DW/H. Böhme
پارٹنر ملک پولینڈ کا حصہ
رواں برس کے ہینوور صںعتی تجارتی میلے کا سرکاری پارٹنر ملک پولینڈ ہے۔ یہ جدید الیکٹرک بس Ursus نامی فرم نے بنائی ہے، جو پولش جرمن پارٹنر شپ کا نتیجہ ہے۔ جرمنی کمپنی Ziehl-Abegg نے بھی اس ماحول دوست بس کو بنانے میں ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
یہ کلاؤڈ ہے
ہینوور صنعتی تجارتی میلے میں اس مرتبہ ای کامرس کے بڑے ادارے ایمازون کی نمائندگی بھی توجہ مرکز بن رہی ہے۔ کلاؤڈ سروسز یعنی ڈیٹا کو ریموٹ سرورز پر اسٹور کرنے پر بڑی سرمایا کاری کی جا رہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو مستقبل میں انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
مکمل ’انالوگ‘
اگرچہ ہینوور صنعتی تجارتی میلے پیداواری عمل کی ڈیجیٹلائزشن پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ہر چیز ڈیجیٹل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہ اوزار۔ کسی کمپیوٹر سرور کے خراب یا کسی روبوٹ کے زنگ آلود ہونے پر اس ’انالوگ‘ ہتھوڑے کا استعمال مکمل حل ہو سکتا ہے۔
تصویر: DW/H. Böhme
’اِنٹیگریٹڈ انڈسٹری‘
اپنی نوعیت کی یہ سب سے بڑی سالانہ عالمی نمائش ہینوور میں اس سال مجموعی طور پر 70 ویں مرتبہ منعقد کی جا رہی ہے اور اس نمائش کا اہم ترین موضوع وہ ’اِنٹیگریٹڈ انڈسٹری‘ ہے، جس میں بین الاقوامی سطح پر روبوٹس اب زیادہ سے زیادہ اہم اور متنوع کردار کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Z. Abbany
ساڑھے چھ ہزار سے زائد صنعتی نمائش کنندہ اداروں کی شمولیت
اس مرتبہ اس عالمی تجارتی میلے میں مختلف براعظموں میں بیسیوں مختلف ممالک سے آنے والے کُل ساڑھے چھ ہزار سے زائد صنعتی نمائش کنندہ ادارے حصہ لے رہے ہیں اور مجموعی طور پر اس میلے کو دیکھنے کے لیے آنے والے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی تعداد قریب دو لاکھ تک رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: DW/Z. Abbany
میرکل نے افتتاح کیا
شمالی جرمنی کے شہر ہینوور میں دنیا کے سب بڑے صنعتی تجارتی میلے کا جرمن چانسلر اور پولینڈ کی وزیر اعظم نے مل کر کیا۔ اس سال اس پانچ روزہ عالمی تجارتی نمائش کا خصوصی پارٹنر ملک پولینڈ ہے۔