سعودی عرب میں اولین ’عرب فیشن ویک‘ کا انعقاد آئندہ ماہ ہو گا۔ عرب فیشن کونسل کی طرف سے اس بات کا اعلان پیر کے روز کیا گیا۔ سعودی عرب میں فنون لطیفہ کے حوالے سے اس کی پالیسی میں یہ واضح تبدیلی کا اشارہ ہے۔
اشتہار
قدامت پسند مسلمان ملک سعودی عرب میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فنون لطیفہ اور تفریح سے متعلق سخت قوانین لاگو رہے ہیں تاہم اب اس عرب ملک کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ 32 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان نہ صرف نوجوان نسل پر انحصار کر رہے ہیں بلکہ نجی شعبہ جات میں سعودی خواتین کو بھی با اختیار بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔
دبئی میں قائم عرب فیشن کونسل کی طرف سے اپنی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ عرب فیشن ویک کا انعقاد رواں برس 26 سے 31 مارچ تک سعودی درالحکومت ریاض میں کیا جائے گا۔ یہ فیشن ویک ریاض کے ایپکس سینٹر میں منعقد ہو گا۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے کی شکل کا یہ ماحول دوست سینٹر معروف عراقی برطانوی ماہر تعمیرات زاہا حدید نے ڈیزائن کیا تھا۔
عرب فیشن کونسل نے گزشتہ برس دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ ریاض میں اپنا علاقائی دفتر کھول رہی ہے۔ سعودی شہزادی نورا بنت فیصل السعود کو اس کا اعزازی صدر بنایا گیا تھا۔ شہزادی نورا کی طرف سے عرب فیشن کونسل کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے، ’’ریاض میں پہلا عرب فیشن شو ایک عالمی سطح کے ایونٹ سے کہیں بڑھ کر ہو گا۔ یہ ایک ایسا عمل ثابت ہو گا جس کے باعث ہمارے خیال میں فیشن سیکٹر دیگر اقتصادی شعبوں میں بھی ترقی کا باعث بنے گا جیسے سیاحت، میزبانی، سفر اور تجارت وغیرہ۔‘‘
عرب فیشن ویک، پیرس اور میلان کے فیشن ویک کی طرح ایک بین الاقوامی فیشن ایونٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہر سال دو بار منعقد ہونے والے عرب فیشن ویک کے دوران صارفین وہاں نمائش کے لیے پیش کیے گئے ملبوسات اور فیشن کے دیگر لوازمات کو خرید بھی سکتے ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین کے لیے اب تک عبایا پہننا لازمی تھا تاہم رواں ماہ کے آغاز میں ہی ایک سینیئر مذہبی رہنما شیخ عبداللہ المطلق نے فتویٰ دیا تھا کہ خواتین کو عبایا پہننے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ سعودی عرب کے اعلیٰ ترین مذہبی ادارے کونسل آف اسکالر کے رکن شیخ عبداللہ کے مطابق تاہم خواتین کو وہ لباس زیب تن کرنا چاہیے، جو مناسب ہو اور شرم و حیا کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔