نوبل انعام یافتہ دس شخصیات نے سعودی عرب کے بادشاہ اور ملک کے ولی عہد سے اپیل کی ہے کہ وہ سن دو ہزار بارہ کے مظاہروں میں شرکت کرنے والے چودہ نوجوان افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد روکیں۔
اشتہار
جمعرات گیارہ اگست کو ان افراد کی جانب سے جاری کردہ ایک خط میں کہا گیا ہے کہ ان چودہ افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ’’ ایک بڑی ناانصافی کو درست‘‘ ثابت کرے گا۔ ان نوبل انعام یافتہ افراد نے سعودی حکام پر ملزمان سے جبراﹰ اعتراف جرم کرانے اور اُن پر جسمانی تشدد کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
چودہ ملزمان کو پھانسی کی سزا مظاہروں میں شرکت کرنے اور ملکی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے الزام میں سنائی گئی ہے۔ تمام چودہ افراد کا تعلق ملک کی شیعہ اقلیت سے ہے۔
ان نوجوانوں میں سے ایک مجتبیٰ السویخت بھی ہیں جنہیں سعودی ائیر پورٹ سے اُس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ مغربی مشی گن یونیورسٹی جانے کے لیے امریکا روانہ ہو رہے تھے۔ نوبل انعام پانے والے افراد کا کہنا ہے کہ السویخت اُس وقت اٹھارہ برس کا تھا، جب اسے فیس بک پر ایک گروپ چلانے اور مظاہروں کی تصاویر پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ان شخصیات کا کہنا ہے کہ زبردستی اعتراف جرم کروانے کے دوران السویخت کا بازو ٹوٹ گیا تھا اور یہ بھی کہ عدالت میں ان ملزمان نے اعترافِ جرم سے انکار کیا۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سزا پر نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے دوران ملزمان پر مبینہ جسمانی تشدد کی تحقیقات نہیں کی گئیں، جو اگر درست ثابت ہوتا ہے تو یہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ اسلامی شریعہ قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
'دی امیریکن فیڈریشن آف ٹیچرز‘ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ ان چودہ نوجوان افراد کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کو رکوایا جائے۔
سعودی وزارت انصاف کے ترجمان منصور القفاری نے چار اگست کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب میں وہ تمام افراد جن کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں اُنہیں اپنی صفائی کے لیے مناسب مواقع حاصل ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں قدامت پرست مذہبی رہنما ماضی میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو ’کافر‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شیعہ مظاہرین پر سعودی عرب کے حریف ملک ’ایران کے اتحادی‘ ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی کے اثرات
تقریباً روزانہ ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ایک برس سے زائد عرصے سے کمزور عالمی معیشت اور تیل کی زیادہ پیداوار کے باعث بے یقینی کی سی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے کچھ ممالک بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hong
خمار اتر رہا ہے
کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ناروے بھی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہو جائے گا۔ بحیرہٴ شمال کی تہہ میں موجود خام تیل نے ناروے کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تاہم تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اوسلو حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب یہ ملک تیل اور گیس کی فروخت پر بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری پر بھی انحصار بڑھائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Hagen
دوہرا نقصان
صرف یورپی یونین کی اقتصادیاں پابندیاں ہی نہیں بلکہ تیل کی کم قیمتیں بھی روس کے غصے میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ 2015ء کے دوران روسی اقتصادی ترقی میں چار فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ تنخواہوں میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روبل کی قدر میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اقتصادیات سے متعلق ایک تنظیم ’بلومبرگ‘ کے مطابق اس سال بھی روس کو کساد بازاری کا سامنا رہے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Druzhinin
مستقبل داؤ پر
نائجیریا افریقہ میں تیل کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ نئے صدر محمدو بخاری نے انتخابات سے قبل ریاستی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ انتخابی وعدہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی نذر ہو گیا۔ عالمی بینک کے مطابق اس ملک کو ایک تہائی آمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بہت سے منصوبے تعّطل کا شکار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی حقیقت
صرف نائجیریا ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ممالک اپنے مالیاتی معاملات کا حساب کتاب تیل کی اونچی قیمتوں سے کرتے ہیں۔ تاہم کم قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک کے ریاستی بجٹوں میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔ 2014ء کے وسط سے تیل کی قیمتیں تقریباً 75 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ ماہرین مستقبل قریب میں اس صورتحال کو بہتر ہوتا ہوا بھی نہیں دیکھ رہے۔
پابندیوں کے بعد
برآمدات پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ایران روزانہ تقریباً ڈیڑھ ملین بیرل تیل عالمی منڈی کو مہیا کرے گا۔ اس طرح یہ ملک خود کو بھی نقصان پہنچائے گا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی مقدار بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو گی۔ تاہم تہران حکومت اپنے دشمن سعودی عرب کو ان کم قیمتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh
اپنے ہی دام میں
سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کرنے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس طرح سعودی عرب تیل نکالنے کے شعبے میں امریکا اور اپنے حریف ملک ایران کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ تاہم اب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک اپنے ہی دام میں پھنستا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے سعودی عرب کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خسارے سے خبردار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Grimm
آخر کب تک؟
قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کی صورتحال بھی سعودی عرب سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مالیاتی ادارے جے پی مورگن کے اندازوں کے مطابق چھ خلیجی ریاستوں کے بجٹ کے خسارے کو اگر ایک ساتھ ملایا جائے تو یہ 260 ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: M. Naamani//AFP/Getty Images
انتقال اقتدار سے قبل
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لاطینی امریکی ملک وینزویلا کے پاس ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی سوشلسٹ حکومت تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے اپنے سماجی منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتی رہی۔ تاہم اب صدر نکولس مادورو نے اقتصادی شعبے میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں ملک میں سیاسی میدان میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters
کھدائی، کھدائی اور کھدائی اور اب ؟
تیل تلاش کرنے کی جدید ٹیکنالوجی نے امریکا کو تیل کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔ تاہم ان کم قیمتوں کی وجہ سے انتظامیہ بہت سے آئل ٹرمینلز کو بند کرنے پر بھی مجبور ہو چکی ہے۔ امریکا توانائی کے استعمال کے حوالے سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تیل کی انتہائی کم قیمتوں سے گاڑی چلانے والے افراد البتہ آج کل بے حد خوش ہیں۔