سعودی عرب کا خاشقجی کے مشتبہ قاتلوں کی ملک بدری سے انکار
27 اکتوبر 2018
سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے اٹھارہ مشتبہ سعودی قاتلوں کو ملک بدر کر کے ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ ان ملزمان کے خلاف مقدمہ سعودی عرب ہی میں چلایا جائے گا۔
اشتہار
ترک حکام نے ابھی کل جمعہ چھبیس اکتوبر کے روز ہی کہا تھا کہ انہوں نے ایک ایسی تحریری درخواست تیار کر لی ہے، جس میں ریاض حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ استنبول کے سعودی قونصل خانے میں دو اکتوبر کو قتل کر دیے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مشتبہ قاتلوں کو ترک محکمہ انصاف کے حوالے کر دیا جائے تاکہ ان کے خلاف استنبول کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے۔
اس پر اپنے ردعمل میں ہفتہ ستائیس اکتوبر کو سعودی وزیر خارجہ الجبیر نے کہا کہ ریاض حکومت چاہتی ہے کہ ان ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی سعودی عرب ہی میں مکمل کی جائے۔ خلیجی عرب ریاست بحرین کے دارالحکومت مناما میں ایک علاقائی دفاعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عادل الجبیر نے کہا، ’’جہاں تک ملک بدری کا سوال ہے تو یہ مشتبہ افراد سعودی شہری ہیں۔ انہیں سعودی عرب ہی میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف چھان بین بھی سعودی عرب ہی میں ہو رہی ہے۔ اس لیے ان کے خلاف عدالتی کارروائی بھی سعودی عرب ہی میں مکمل کی جائے گی۔‘‘
الجبیر کے اس بیان کے ساتھ ہی خاشقجی کے قتل سے متعلق مشتبہ ملزمان کے خلاف کسی بھی ممکنہ عدالتی کارروائی کا معاملہ ایک ایسا رنگ اختیار کر گیا ہے، جس میں ترک اور سعودی موقف ایک دوسرے سے قطعی مختلف اور متصادم ہو گئے ہیں۔ ابھی کل ہی خود ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ ریاض حکومت ان 18 مشتبہ ملزمان کو ملک بدر کر کے انقرہ کے حوالے کرے۔
اب سعودی وزیر خارجہ کا نیا بیان اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سعودی حکمران ایسا کرنے پر بالکل تیار نہیں ہیں۔ اسی سلسلے میں خاشقجی کے قتل کی مشترکہ چھان بین میں اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل بھی کل اتوار اٹھائیس اکتوبر کو ترکی کا ایک دورہ کرنے والے ہیں۔
جمال خاشقجی کے قتل کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سعودی حکمرانوں کا ناقد یہ سعودی صحافی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے جانے کے بعد سے لاپتہ تھا۔ سعودی حکام پہلے دو ہفتوں تک یہی کہتے رہے تھے کہ وہ نہیں جانتے کہ خاشقجی کہاں ہے۔
پھر اس بارے میں ترک ماہرین استغاثہ کی طرف سے جمع کردہ شواہد کی روشنی میں جب واضح طور پر خاشقجی کو قتل کر نے والے سعودی کمانڈوز کی ایک پندرہ رکنی ٹیم کا ذکر بھی ہونے لگا، تو سعودی حکام نے پہلے یہ تسلیم کیا کہ خاشقجی کو قتل کیا جا چکا ہے۔ پھر وزیر خارجہ عادل الجبیر نے یہ اعتراف بھی کر لیا تھا کہ خاشقجی کا قتل ’ایک بہت بڑی اور سنگین غلطی‘ تھا۔
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/M. al-Sayaghi
5 تصاویر1 | 5
اسی قتل کے سلسلے میں کئی حلقے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام بھی لے رہے تھے کہ یہ قتل مبینہ طور پر انہی کے حکم پر کیا گیا تھا۔ لیکن وزیر خارجہ الجبیر اور دیگر اعلیٰ سعودی نمائندوں نے اس الزام کی پرزور تردید کر دی تھی کہ اس قتل کا سعودی علی عہد سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ہے یا تھا۔
اس بارے میں الجبیر نے ہفتے کے روز مناما میں یہ بھی کہا کہ عالمی برادری کو اس قتل کی تفتیش کے نتائج سامنے آنے کا انتطار کرنا چاہیے۔ الجبیر کے مطابق، ’’تفتیش جاری ہے۔ ہم سچ جان جائیں گے۔ اس قتل کے ذمے دار افراد کو جواب دہ بنایا جائے گا اور اس بات کو یقینی بھی، کہ ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔‘‘
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے مناما سے ملنے والی اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ جمال خاشقجی کے قتل پر میڈیا کی مسلسل اور بھرپور توجہ ایک ’ہیجانی‘ صورت حال کا رنگ اختیار کر چکی ہے حالانکہ پبلک کو سعودی قیادت کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے حقائق سامنے آنے کا انتطار کرنا چاہیے۔ عادل الجبیر کے الفاظ میں، ’’ہم اس (صورت حال) پر قابو پا لیں گے۔‘‘
م م / ع ح / اے ایف پی، اے پی، روئٹرز
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔