1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن کی خانہ جنگی کے دس سال بعد نئی امید کی کرن

10 فروری 2021

عرب بہار سےیمن میں ایک خانہ جنگی کا آغاز ہوا جو گزشتہ سات برسوں میں عوام کی ناگفتہ بہ صورتحال کا سبب بنی۔ کیا نئی امریکی حکومت اسلحے کی فروخت روک دے گی اور یمن کے لیے مقرر کردہ نیا خصوصی ایلچی یمن میں امن قائم کرسکے گا؟

Jemen Taiz | Demonstrant
تصویر: Eman Al-Mekhlafi/DW

یمن میں اقتدار کی طاقت کا مظہر علی عبداللہ صالح 1978ء سے 1990 ء تک عرب جمہوریہ یمن کے صدارتی منصب پر براجمان رہے۔ تب تک یمن دو حصوں میں منقسم تھا۔ 1990 ء میں یمن کے اتحاد کے بعد عبداللہ صالح متحد یمنی ریاست کے صدر بنے اور تب سے لے کر 2012 ء تک صدارتی منصب پر فائز رہے۔

یعنی اُس وقت کے مصر کے صدر حُسنی مبارک سے ایک سال زیادہ عرصے تک یمن میں علی عبداللہ صالح صدر تھے۔ 11 فروری 2011 ء کو عین اُس وقت جب یمن سے انقلاب کی بُو آنا شروع ہوئی تھی، حُسنی مبارک کو معزول کر دیا گیا۔ یہ یمنی عوام کے لیے ایک سنہری موقع تھا، انقلاب کی دبی دبی چنگاریوں کو ہوا دینے کا۔ جو مہم فیس بُک پر شروع ہو چکی تھی اُسے عملی طور پر سڑکوں پر لے آنے کا۔

مادر انقلاب 

ایک سماجی خاتون توکل کارمان صنعاء کی سڑکوں پر انقلاب کے نعرے لگانے والوں کے ساتھ شانہ بشانہ تھیں۔ تاہم وہ اپنے معاشرے میں بدعنوانی کے خلاف 2007 ء سے لڑ رہی تھیں اور مظاہروں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ توکل کارمان حکومت کی طرف سے مظاہرین پر آنسو گیس حملوں اور نوجوان مظاہرین کے خلاف پولیس کی وحشیانہ کارروائیوں کے باوجود ہمیشہ حکومت کے ساتھ پُر امن مکالمت کی حمایت کرتی تھیں۔

بعد ازاں 2011 ء میں انہیں ان کی مثالی جدوجہد کے عوض امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ان کے ساتھ اس انعام کا حقدار لائبیریا کی دو 'پیس ایکٹیوسٹ‘ خواتین ایلن جانسن سر لیف اور لیماہ بووی کو بھی قرار دیا گیا تاہم توکل کارمان نوبل امن انعام پانے والی پہلی یمنی اور عرب خاتون تھیں۔

توکل کارمان کو 2011 ء میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ تصویر: picture-alliance/dpa

انہیں جمہوریت کی جدوجہد اور یمن میں خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے میں نمایاں کردار ادا کرنے پر اس اعزاز سے نوازا گیا۔ روئٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کارمان کا کہنا تھا، ''انقلاب کے بعد تین سال ہم نے بہت خوبصورت وقت گزارا تاہم 25 فروری 2012 ء میں علی عبداللہ صالح کے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی یمن دنیا کا بدترین بحران زدہ ملک بن گیا۔‘‘

اقوام متحدہ کی مہاجرین ایجنسی یو این ایچ سی آر کے مطابق یمن کی تقریبا 30 ملین کی آبادی کا 80 فیصد اس وقت کسی نا کسی طرح کی امداد  کا منتظر ہے۔ 20 ملین انسانوں کو غذا کی قلت کا سامنا ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ یمنی باشندے لقمہ اجل بن چُکے ہیں۔

زہریلے، پیچدار دس برس

یمن کی تاریخ کے گزشتہ دس برس کے عرصے کے دوران سات سال یہ ملک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔

اس پیچیدہ اور سنگین صورتحال کا آغاز علی عبداللہ صالح کے جانشین منصور ہادی کی سیاسی ناکامی سے ہوا، جن کے پاس سابق صدر کی طرح یمنی عوام کو درپیش سنگین مسائل، جیسے کے بیروزگاری، غذائی قلت، بدعنوانی کا کوئی حل اور ان سے جُڑے سوالات کا کوئی جواب موجود نہیں تھا۔

یمن کے جنوب میں ایک طرف جہادیوں کے حملے اور دوسری طرف سکیورٹی اہلکاروں کی سابق صدر صالح کے ساتھ قائم وفاداری۔ صورتحال مزید خراب ہوتی چلی گئی۔

اُدھر  ایران کی حمایت سے سرگرم ہونے والی حوثی تحریک نے ملک کے شمالی حصے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ 2014 ء کے اختتام پر حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ ہادی ملک سے فرار ہو گئے اور سعودی بادشاہت سمیت آٹھ دیگر سنی عرب ریاستیں اس تنازعے میں سرکردہ کردار ادا کرنے لگیں۔

اس سنی عرب اتحاد کی حمایت امریکا، برطانیہ اور فرانس نے کی۔ ان کا مقصد حوثیوں کو شکست دینا، ہادی کی حکومت کو بحال کرنا اور یمن پر ایرانی اثر ورسوخ ختم کرنا ہے۔ سعودی عرب کا کردار اس ضمن میں غیر معمولی ہے۔ 

دس سالہ خانہ جنگی سے متاثرہ یمنی باشندے۔تصویر: Mohammed Hamoud/AA/picture alliance

نئے امریکی صدر بائیڈن کے وعدے، امید کی کرن

امریکی سابق ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما اور سابق ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ، دونوں کے صدارتی ادوار میں بالواسطہ طور پر یمن کی خانہ جنگی میں شامل رہے۔ 2015 ء میں اوباما نے سعودی عرب کو سرحد پار حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کی منظوری دی تھی۔

اب یمن کی لڑائی کے قریب 7 سال بعد اب نئے امریکی صدر اور ڈیموکریٹ لیڈر جو بائیڈن نے ایک اہم تبدیلی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا، '' یمن کی جنگ کا اب خاتمہ ہونا چاہیے۔‘‘

جو بائیڈن نے ساتھ ہی اپنے عزائم کا اظہار یوں کیا، '' ہم یمن کی جنگ میں جارحانہ کارروائیوں کے لیے تمام امریکی حمایت ختم کر رہے ہیں۔ بشمول متعلقہ اسلحے کی فروخت۔‘‘

نئے امریکی صدر نے یمن کی جنگ کو'' انسانی اور اسٹریٹیجک تباہی‘‘ بھی قرار دیا۔ امریکی اسلحے کی فروخت روکنے کے عمل میں تاہم وہ اسلحہ شامل نہیں ہے، جو دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے خلاف جنگ میں استعمال ہو رہا ہے۔

مزید برآں یمن کے لیے امریکا کے نئے اور خصوصی ایلچی کے طور پر کہنہ مشق امریکی سفارت کار اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر ٹیموتھی لینڈرکنگ کی تقرری کو بھی سیاسی تجزیہ نگار یمن کے لیے ایک اور اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔

سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے یمن کے زیادہ تر پُلوں کو تیاہ کر دیا گیا ہے۔تصویر: Hani Mohammed/AP Photo/picture-alliance

 

تاہم کچھ ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن انتظایمہ کی طرف سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کو روکنے کا عمل تنہا کافی اقدام نہیں ہے۔ تجزیہ کار الحمدانی کے بقول، ''اسلحے کی فروخت کو روکنے کا اعلان ہر گز اس کی ضمانت نہیں کہ اسلحے کی فروخت بند کر دی گئی ہو۔‘‘

اُدھر صنعا سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹیڈیز کے چیئرمین اور شریک بانی اور لندن میں مقیم بین الاقوامی امور کے تھنک ٹینک 'چیتم ہاؤس‘ کی ایک ایسوسی ایٹ فیلو فریدہ المسلمی بھی امریکا کی طرف سے اسلحے کی فروخت کو روکنے کے وعدے کو ایک توقع تو قرار دیتی ہیں مگر ان کے خیال میں یہ اقدام کافی نہیں ہے۔

جینیفر ہولائس/ ک م/ ع ب

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں