سعودی عرب کو اہم منصوبے دینے کی خبریں، کئی حلقوں میں تشویش
عبدالستار، اسلام آباد
28 ستمبر 2018
سعودی عرب کو بلوچستان میں ممکنہ طور پر اہم منصوبے دیے جانے کی خبروں کے سبب پاکستان کے کئی سیاسی اور سماجی حلقوں کو تشویش ہے کہ اس فیصلے سے خطے میں کئی ’جیو اسٹریجک‘ مسائل جنم لیں گے اور فرقہ پرست تنظیمیں مضبوط ہوں گی۔
اشتہار
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کل بروز جمعرات ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تین اہم معاہدے کیے ہیں جو سڑکوں کی تعمیر اور توانائی کے حوالے سے ہیں۔ یہ منصوبے سی پیک کا حصہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک اعلیٰ سعودی وفد اتوار کو پاکستان پہنچے گا اور اگلے ہفتے سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جائیں گے۔ یہ معاہدے ریکوڈک، کاپر مائننگ اور گوادر میں آئل ریفائنیری بنانے کے حوالے سے ہیں۔
پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹر یبیون کے مطابق جمعرات کو ہی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی معتمد احمد الخطیب نے، جو سعودی 'فنڈ فارانویسٹمنٹ‘ کے سربراہ بھی ہیں، اسلام آباد کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ اس مختصر قیام کی وجہ سے بھی کئی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ہیں۔ لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے سعودی اثر و رسوخ سے سب سے سنجیدہ مسائل بلوچستان، پاکستانی معاشرے اور خطے پر پڑیں گے۔
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ میر حاصل خان بزنجو نے اس ساری صورتِ حال پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’نہ ہی سینیٹ کو اور نہ بلوچستان حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ وفاقی حکومت اتنے اہم فیصلے کرنے جارہی ہے، جس کے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک پر اثرات مرتب ہوں گے۔ گوادر میں سعودی ریفائنری لگا کر سعودیوں کو بٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایران کے دشمن کو اس کی سرحد پر لا کر بٹھا دیا ہے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ پہلے یہ ریفائنری چین کو دینے کی بات ہورہی تھی اور اب اچانک یہ سعودی عرب کو دی جارہی ہے۔ سعودی موجودگی سے نہ صرف خطے میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ پاکستان اور بلوچستان میں کام کرنے والی فرقہ پرست تنظیموں کے حوصلے بھی بڑھیں گے، جس سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ماضی میں ریکوڈک کے معاہدے انتہائی متنازعے رہے ہیں اورسپریم کورٹ نے ایک کمپنی کا معاہدہ بھی منسوخ کیا تھا۔ حاصل بزنجو اس بات پر حیران ہیں کہ ریکوڈک سعودیوں کو کیسے دیا جا سکتا ہے۔’’ریکوڈک کے مسئلے پر تو ہم مصالحت میں گئے ہوئے، ہیں جہاں ہم پر جرمانہ ہوا ہے۔ تو میری سمجھ سے باہر ہے کہ ہم یہ معاہدہ اب سعودی عرب سے کیسے کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب کا مائننگ میں کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کے معاہدے اتنی جلدی نہیں ہوتے۔ وفاقی حکومت جو پھرتی دکھا رہی رہے، اس سے شکوک و شہبات جنم لیں گے۔‘‘
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایک ایسے وقت میں، جب امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب نے ایران کے خلاف پہلے ہی محاذ کھولا ہوا ہے، اسلام آباد کی ریاض کے ساتھ قربت بڑی معنی خیز ہے۔ ایران میں حال ہی میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے۔ تہران حکومت نے اس کا الزام ریاض اور واشنگٹن حکومت پر عائد کیا ہے۔ ایسی صورت میں پاک سعودی قربت تہران میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دے گی۔
اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ پروفیسر امان میمن کے خیال میں اس فیصلے سے نہ صرف تہران ناراض ہوگا بلکہ چین بھی اس پر چراغ پا ہوگا۔ پروفیسر میمن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’حالیہ عشروں میں پہلی بار محسوس ہورہا تھا کہ پاکستان امریکی حلقہِ اثر سے نکل رہا ہے اور خطے میں پاکستان، روس، ایران اور چین کے درمیان تعاون بڑھ رہا تھا۔ لیکن اسلام آباد کی ایک بار پھر ریاض سے قربت اس بات کی غماز ہے کہ امریکا خطے میں دوبارہ قدم جمانے جارہا ہے کیونکہ سعودی عرب کا مطلب امریکا ہے۔ وہ امریکا کا قریبی اتحادی ہے اور اس کے تل ابیب سے بھی خفیہ مراسم ہیں۔ اور تینوں کا ہدف ایک ہے، یعنی تہران۔ پاکستان کی سعودی عرب سے قربت اس کو ایران اور چین سے دور کر سکتی ہے، جس کے خطے پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
امان میمن کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے بڑی مشکل سے دہشت گردی سے جان چھڑائی تھی لیکن اب سعودی اثر ورسوخ بڑھے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص فرقہ وارانہ تنظیمیں آزادانہ سرگرم ہوں گی۔ بلوچستان میں فرقہ واریت کی ایک تازہ لہر اٹھ سکتی ہے، جس سے نہ صرف صوبے بلکہ ملک کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔