سعودی عرب کو دھمکانے والوں کی خیر نہیں، محمد بن سلمان
13 نومبر 2020
سعودی عرب کے’عملاً حکمراں‘ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے متنبہ کیا ہے کہ مملکت کو دھمکانے والوں اور سکیورٹی اور استحکام کے لیے خطرہ بننے والوں کے ساتھ ’آہنی ہاتھوں‘ سے نمٹا جائے گا۔
اشتہار
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے، جدہ میں غیر مسلموں کے ایک قبرستان میں ہونے والے حملے کے ایک دن بعد، جمعرات کے روز، سعودی مجلس شوری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مملکت کی سلامتی او ر استحکام کے لیے خطرہ پیدا کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
بدھ کے روز جدہ کے ایک قبرستان میں ہونے والے دھماکے میں دو افراد زخمی ہوگئے تھے۔ یہ دھماکا پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کی یاد میں منعقدہ ایک ایسی تقریب کے دوران ہوا تھا جس میں فرانس کے علاوہ امریکی، برطانوی، اطالوی اور یونانی سفارت کار بھی موجود تھے۔
اس دھماکے کی ذمہ داری سخت گیر جنگجو گروپ داعش نے لی ہے۔ حالانکہ اس نے اپنے دعوے کی تائید میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق سعودی عرب کے عملاً حکمراں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مملکت کے اعلی ترین مشاورتی ادارے، مجلس شوری، کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”جوکوئی بھی ہماری سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کا خیال رکھتا ہو، ہم اس کے خلاف 'آہنی ہاتھوں‘ سے نمٹیں گے۔“
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/M. al-Sayaghi
5 تصاویر1 | 5
بدھ کے روز قبرستان میں ہونے والے حملے سے قبل اکتوبرکے اواخر میں جدہ میں واقع فرانسیسی قونصل خانے کے باہر تعینات سکیورٹی گارڈپر ایک شخص نے 'خنجر‘ سے حملہ کرکے اسے زخمی کر دیا تھا۔ یہ حملہ پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکوں کی اشاعت کے بعد فرانس اور آسٹریا میں ہونے والے حملوں کے فوراً بعد ہی ہوا تھا۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے شدت پسندی اور دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ2017 میں وزارت داخلہ کی تنظیم نو اور سکیورٹی کے نظام میں اصلاحات کے بعد سے تیل ایکسپورٹ کرنے والے دنیا کے چوٹی کے ملک اور امریکا کے انتہائی اہم اتحادی سعودی عرب میں حقیقی دہشت گردانہ حملوں کی تعداد گھٹ کر 'تقریباً صفر‘ رہ گئی ہے۔
ولی عہدہ شہزادہ محمد بن سلمان 2017 میں شاہی محل میں بغاوت کے بعد اس وقت کے ولی عہد کو معزول کرکے خود ولی عہد بن گئے تھے۔
محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں بدعنوانیوں کا اعتراف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”مملکت میں اگرچہ کرپشن عام ہے اور پہلے یہ کینسر کے موذی مرض کی طرح پھیل رہی تھی لیکن انسداد بدعنوانی کی مہم بڑی کامیاب رہی ہے اور گذشتہ تین سال کے دوران قومی خزانے اور سرکاری ادروں سے لوٹ کھسوٹ کیے گئے 247 ارب ریال وصول کرلیے گئے ہیں اور یہ رقم غیر تیل آمدن کا 20 فیصد ہے۔
سعودی عرب میں پھانسیاں اور احتجاج
02:26
خیال رہے کہ سعودی حکومت نے جنوری 2019 میں بدعنوانی کے خلاف ایک زبردست مہم کے دوران شاہی خاندان کے متعدد افراد کے علاوہ اہم شخصیات کو گرفتار کرلیا تھا اور کافی بڑی رقم ہرجانے کے طورپر ادا کرنے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگوں کو رہا ئی مل سکی تھی۔
ناقدین کا تاہم کہنا تھا کہ بدعنوانی کے خلاف کارروائی دراصل اقتدار پر اپنی گرفت مستحکم کرنے کی محمد بن سلمان کی کوشش تھی تاکہ وہ اقتدار پر پہنچنے کی اپنی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرسکیں۔
ولی عہد نے اپنے خطاب میں مزید بتایا کہ گذشتہ چار سال کے دوران پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کی بدولت روزگار کے ایک لاکھ 90 ہزار سے زیادہ مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ سعودی عرب دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ حکومت نے لیبر مارکیٹ میں اصلاحات کی ہیں، تاکہ قدری اہمیت کے حامل ملازمین کو اس مارکیٹ کی جانب راغب کیا جا سکے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔