1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو سینکڑوں جرمن ٹینکوں کی متنازعہ فروخت

Imtiaz Ahmad19 جون 2012

کیا سعودی عرب کو جرمن جنگی ٹینک فروخت کیے جانے چاہییں؟ ایک برس قبل اسی موضوع پر حکومت اور اپوزیشن میں بحث شدت اختیار کر گئی تھی۔ اب ہتھیاروں کے اس مجوزہ سمجھوتے سے متعلق نئی معلومات سامنے آئی ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa/Krauss-Maffei Wegmann

باقاعدہ طور پر جرمن حکومت نے ابھی تک اس سمجھوتے کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن گزشتہ ایک سال سے جرمن میڈیا میں ہتھیاروں کے اس معاہدے سے متعلق قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ تب اطلاعات یہ تھیں کہ سعودی سکیورٹی فورسز کے لیے جرمنی اپنے ’لیپرڈ 2A7+‘ طرز کے 200 سے 300 انتہائی جدید ٹینک مہیا کرے گا۔ تازہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اب سعودی حکومت چار گنا زیادہ یعنی آٹھ سو کے قریب جنگی ٹینک خریدنا چاہتی ہے۔

اگر سعودی عرب کی حکومت واقعی آٹھ سو جنگی ٹینک خریدتی ہے تو یہ معاہدہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاریخ میں سب سے بڑے دفاعی معاہدوں میں سے ایک ہو گا۔ اندازوں کے مطابق اس معاہدے کی مالیت 10 ارب یورو کے قریب بنتی ہے۔

حالیہ چند برسوں میں جرمنی میں ہتھیاروں کی برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سن 2009ء میں جرمنی نے 1.34 ارب یورو کا اسلحہ برآمد کیا تھا جبکہ سن 2010 میں برآمد کیے جانے والے ہتھیاروں کی مالیت 2.1 ارب یورو بنتی ہے۔ امریکا اور روس کے بعد جرمنی ہتھیار برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

حکومتی مؤقف

جرمنی کی برسر اقتدار جماعت سی ڈی یو کے پارلیمانی گروپ کی اقتصادی پالیسی کے ترجمان یوآخم فائفر کا جنگی ٹینکوں کی فروخت کے بارے میں کہنا ہے، ’’جرمنی میں فوجی آلات کی برآمدات کے بارے میں سخت ترین قوانین موجود ہیں، اس طرح کے منصوبوں کی بہت قریب سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اور اگر دوسرا ملک تمام شرائط پر پورا اترے، تب ہی ہتھیار برآمد کیے جا سکتے ہیں۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa

ایسے معاہدوں کی وفاقی سلامتی کونسل کہلانے والے ادارے کی طرف سے منظوری لازمی ہوتی ہے۔ فیڈرل سکیورٹی کونسل وفاقی چانسلر کی سربراہی میں قائم جرمن کابینہ کی ایک ایسی کمیٹی ہوتی ہے، جس میں کئی وزراء شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کونسل کے کسی بھی اجلاس کی تفصیلات قانوناﹰ خفیہ رکھی جاتی ہیں، اس لیے جرمن عوام کو فوری طور پر یہ خبر نہیں ہوتی کہ کس ملک کو کس طرح کے ہتھیاروں کی برآمدات کی اجازت دی گئی ہے۔

اپوزیشن کی تنقید

ایسے ملکوں کو جرمن ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق ضابطے بڑے سخت ہیں، جو جرمنی کے اتحادی نہیں ہیں۔ اگر کسی ملک میں انسانی حقوق کا احترام نہ کیا جاتا ہو یا وہاں علاقائی سطح پر کشیدگی پائی جاتی ہو، تو جرمنی ایسے ملکوں کو کوئی ہتھیار فروخت نہیں کر سکتا۔

انہی میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ بحران زدہ علاقوں میں کوئی اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔ اس ضابطے کی پابندی لازمی ہے۔ لیکن پھر بھی بار بار استثنائی فیصلے کیے جاتے ہیں، جن کی باقاعدہ تفصیلات جلد از جلد بھی دو سال بعد وفاقی جرمن حکومت کی ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق رپورٹ میں شامل ہوتی ہیں۔

جرمن پارلیمان میں اپوزیشن کی جماعتوں کی طرف سے اس معاہدے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

اس بارے میں گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والی کلاؤڈیا روتھ نے کہا، ’’سعودی عرب نے اپنے ٹینک بھیج کر بحرین میں عوامی جمہوری تحریک کو کچلنے میں وہاں کے حکمرانوں کی مدد کی تھی۔ ‘‘

جرمن اپوزیشن کا پختہ ارادہ ہے کہ اس بارے میں برلن کی وفاقی پارلیمان میں آئندہ دنوں میں کھل کر بحث ہونی چاہیے۔

Gessat, Rachel / an, ia / aa

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں