یمن میں شہری ہلاکتوں کے باعث واشنگٹن سعودی عرب کو مخصوص فوجی سازوسامان کی فروخت روکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سعودی عسکری اتحاد یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف جنگی کارروائی کر رہا ہے، جس میں شہری بھی مارے جا رہے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی نے ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن میں سعودی عسکری اتحاد کے آپریشن میں شہری ہلاکتوں کے باعث امریکا ریاض حکومت کو کچھ مخصوص قسم کے اسلحے کی فروخت روک رہا ہے۔ اس اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ واشنگٹن سعودی عرب کی سرحدوں کے دفاع کے سلسلے میں ریاض حکومت کے ساتھ تعاون اور خفیہ معلومات کا تبادلہ بھی معطّل کر رہا ہے۔
امریکی حکومت کی طرف سے یہ مبینہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے، جب اکتوبر میں یمن کے ایک ہسپتال پر سعودی عسکری اتحاد کے جنگی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کم ازکم ایک سو چالیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ وائٹ ہاؤس نے اس واقعے کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے تحقیقاتی عمل شروع بھی کر رکھا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ سعودی عسکری اتحاد یمن میں شیعہ باغیوں کے خلاف جاری اپنی کارروائیوں میں شہری علاقوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور گھروں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ انہی تنظیموں نے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالا تھا کہ شہری ہلاکتوں کی وجہ سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روک دی جائے۔
اے پی نے بتایا ہے کہ کچھ فوجی عسکری سازوسامان کی فروخت کو منجمد کرنے کے علاوہ امریکی حکومت سعودی عرب کو ایسی خفیہ معلومات کے تبادلے سے بھی اجتناب کرے گی، جو شہری ہلاکتوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ تاہم اس امریکی اہلکار نے اس منصوبے کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔
یمن: سعیدہ کا موت سے زندگی کی طرف سفر
جنگ زدہ یمن میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کئی برسوں سے غذائی قلت کی شکار ہے۔ یہ تصاویر اس کے قبل از وقت موت سے زندگی کی طرف سفر کی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مصائب کے خطرناک ثبوت
بحیرہ احمر کے ساحلی شہر الحدیدہ میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کی لی گئی یہ تصویر اس کی حالت زار کی عکاس ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وہاں غذائی قلت کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
ایک مسکراہٹ
سعیدہ کو دارالحکومت صنعاء میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال میں کئی ہفتوں کی نگہداشت کے بعد وہ کم از کم مسکرانے کے قابل ہو گئی تھی۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے اس موقع پر بھی اس کے لیے بولنا مشکل تھا۔ اس کے والدین ابھی تک پریشان ہیں کیوں کہ وہ صرف سیال طبی خوراک کھانے کے قابل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
زندگی بھر کا روگ
ڈاکٹروں کے خیال میں اس کی کمزور حالت نے اس کے حلق کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تو سعیدہ اپنی آنکھیں تک کھولنے کے قابل نہیں تھی اور نہ ہی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق سعیدہ کے جسم کو اس قدر نقصان پہنچ چکا ہے کہ ہڈیاں کبھی بھی دوبارہ نارمل نہیں ہوں گی۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
آخر کار وزن میں اضافہ
سعیدہ کے والد احمد ہسپتال میں اس کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی بیٹی کا وزن 16 کلوگرام ہو گیا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تھا تو اس کا وزن محض 11 کلوگرام تھا۔ مارچ دو ہزار پندرہ سے پہلے ہی سعیدہ کی حالت زیادہ بہتر نہ تھی لیکن یمنی بحران کی وجہ سے بھوک، غربت اور داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی عدم تحفظ
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یمن کی آبادہ تقریبا 28 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے تقریباﹰ نصف غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سات ملین یمنی ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تو انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آئندہ کھانا کب ملے گا۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
سعیدہ ہسپتال سے باہر
جنگ کی وجہ سے عرب دنیا کی غریب ترین یمنی قوم قحط کے دہانے پر کھڑی ہو چکی ہے جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد تین ملین سے بھی زائد ہے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے تعز اور الحدیدہ ہیں، جہاں سے سعیدہ کا تعلق ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کی ایک وجہ
یمن جنگ کے آغاز ہی میں اس ملک میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کی آمد و رفت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔ یمن کے ساحلوں پر اشیائے خورد و نوش لانے والے بحری جہازوں کی تعداد پہلے کی نسبت تقریبا نصف کم ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/F. Al Nassar
ادھر بھی توجہ دیں
یمنی خواتین غذائی قلت کے شکار ہونے والے بچوں کی تصاویر پر مبنی بینرز اٹھائے احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا یہ احتجاج اقوام متحدہ کے اس روڈ میپ کے خلاف ہے، جس میں حوثی باغیوں کا دارالحکومت چھوڑنے اور ایک نئے نائب صدر کا اعلان کیا گیا ہے۔ یمن جنگ میں کم از کم 10 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Yahya Arhab/E
8 تصاویر1 | 8
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ یمن میں بمباری کے لیے سعوی فضائیہ کی طرف سے اہداف کے انتخاب کے طریقے پر تحفظات کے باعث امریکا سعودی فضائیہ کے اہلکاروں کو تربیت فراہم کرنے کے حوالے سے بھی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ اس امریکی اہلکار نے یہ بھی بتایا ہے کہ پینٹا گون اور دیگر امریکی ایجنسیاں سعودی عرب کے ساتھ تعاون کے طریقہ کار کو بدلنے پر بھی غور کر رہی ہیں۔
اس امریکی اہلکار نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعاون دراصل ایک ’بلینک چیک‘ نہیں کہ ریاض حکومت یمن میں اپنی کارروائیوں کے دوران اپنے اہداف کے انتخاب پر غور کرنا ہی چھوڑ دے۔ یمن کے تنازعے کے علاوہ ریاض حکومت کو امریکا کی طرف سے دی جانے والی عسکری امداد پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عرب اور علاقے میں اس کے دیگر حلیف ممالک نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگی کارروائی شروع کی تھی تاکہ وہاں فعال ایران نواز جنگجوؤں کو شکست دی جا سکے۔ اس تنازعے میں اب تک کم از کم نو ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔