1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کی فلمی صنعت: چکا چوند اور سنسر شپ کے بیچ

15 مارچ 2021

قدامت پسند سعودی معاشرے میں سنیما گھروں اورتھیئٹرز کو دوبارہ کھولنے کا عمل ثقافتی انقلاب معلوم ہوتا ہے تاہم اس کا اصل مقصد سعودی عرب کے روڈ میپ 'وژن 2030 ‘کو کامیاب بنانا ہے اوراس سے ملازمتوں کے نئےمواقع بھی پیدا ہوں گے۔

Vision 2030 von Saudi-Arabien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell

 

 سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2016 ء میں 'وژن 2030 ‘کا روڈ میپ پیش کیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ سعود ی معاشرے میں تفریحی شعبے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس اقدام سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ ان کا 'وژن‘ دراصل اپنے قدامت پسند معاشرے کی سخت اقدار اور ضوابط میں نرمی اور لچک پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی پرنس سلمان کی حکمت عملی یہ تھی کہ سعودی فلمی صنعت کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کی جائے اور اسے ایک وسیع تر کاروباری شعبہ بنایا جائے۔ ان کی منصوبہ بندی میں فلموں کے لیے مقامی مواد تیار کروانا شامل ہے جس کے لیے 30 ہزار سے زیادہ ملازمتیں پیدا کی جائیں گی۔

عملی اقدامات

مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے ریاض حکومت نے ' جنرل اتھارٹی فار انٹر ٹینمنٹ‘ GAE اور  ' پبلک انوسٹمنٹ فنڈ‘ PIF کے علاوہ 'سعودی فلم کونسل‘ SFC اور ' جنرل کمیشن فار آڈیو ویژول میڈیا‘ GCAM  جیسے ادارے قائم کیے۔

سعودی عرب میں اب فلمیں تیز رفتاری سے تیار کی جا سکیں گی اور با آسانی برآمد کی جا سکیں۔ یہ سب کچھ ایک 'نئے سعودی عرب‘ میں ہو گا۔ سینٹر فار اپلائیڈ ریسرچ ان پارٹنر شپ ود اوریئنٹ‘ کے ایک محقق سباستیان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی  بات چیت میں کہا،''مجھے یقین ہے کہ ولی عہد شہزادہ قومی شناخت کا ایک نیا احساس پیدا کرنے کی اپنی حکمت عملی کے حصے کے طور پر قومی فلموں پر زور دے رہے ہیں، جسے وہ زیادہ جدید سمجھتے ہیں۔‘‘

امریکی فلم اداکارہ کیٹی ہولمس 2020 ء میں ریاض میں منعقد ہونے والی کانفرنس ’سعودی کوالٹی آف لائف پروگرام‘ میں۔تصویر: Getty Images/F. Nureldine

سعودی عرب کی سنیما انڈسٹری کو چلانے  والی اتھارٹی GCAM نے امید ظاہر کی ہے کہ 2030 ء تک سعودی عرب میں 350 سنیما گھر اور ڈھائی ہزار سنیما اسکرینز دستیاب ہوں گی اور سعودی فلمی صنعت کی مالیت ایک بلین ڈالر یا 8 لاکھ 36 ہزار یورو ہو گی۔ ریاض حکومت اپنے 'انٹرٹینمنٹ سیکٹر‘ یا تفریحی شعبے کے بجٹ کو دو گنا کر دے گی۔ یعنی سعودی عرب کی 2018/2019 کی مجموعی قومی پیداوار کے 3 فیصد سے بڑھا کر اسے 2030ء تک 'جی ڈی پی‘ کا 6 فیصد کر دے گی۔ 

ارطغرل کی دھوم عرب اور عثمانی سلاطین کی ’اثر و رسوخ کی جنگ‘

 

 مقامی بزنس کے لیے مزید کشش

 

سعودی عرب کے اندر فلم سازی کا مطلب ہے امتیازی طور پر ' سعودی فلمیں‘ بنانا۔ یعنی 2018 ء سے پہلے جن موضوعات پر فلمیں بنتی تھیں ان  موضوعات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان فلموں میں سے چند نے عالمی سطح پر بہت شہرت حاصل کی تھی۔  اب سعودی عرب کے جدید فلم ساز اپنی فلموں کے موضوعات برآمد کر رہے ہیں۔

محمد بن سلمان پر اقدام قتل کا الزام، کیا وہ اپنی ساکھ بچا پائیں گے؟

اب کی فلمیں جذبات سے بھر پور اور کبھی کبھی روشن خیال موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ عشق و محبت، حسد اور حادثات کی اثر انگیزی وغیرہ اور اس طرح یہ مقاصد کو پورا کر رہی ہیں۔ جیسے کہ سعودی فلم ،' لاسٹ ویزٹ‘ جس کے ہدایت کار عبدالمحسن الدہان ہیں، 'وجدہ‘ جس کی ڈائرکٹر اور اسکرین رائیٹر ھیفا ء المنصور تھیں یا فلم ' When Barakah Barakah ‘ جس کے ہدایتکار محمود صباغ تھے۔

وژن2030 ء کے تحت 2018 ء میں ریاض کا سنیما گھر دروبارہ کھولا گیا۔ تصویر: picture-alliance/AP/A. Nabil

سخت سنسرشپ 

سعودی فلم انڈسٹری کو جدید طرز پر تشکیل دینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس عرب قدامت پرست بادشاہت میں فلم انڈسٹری سخت سنسرشپ کا شکار ہے اور اس کی مالی اعانت بھی کافی حد تک محدود ہے۔ سعودی عرب میں موجود 'برٹش کونسل‘ کی ایک رپورٹ کے ایک مطابق اس بارے میں جن افراد سے  سوال کیا گیا ان میں سے 43  فیصد جواب دہندگان نے تجارتی رقوم یا مالی اعانت کی کمی کو فلمسازی کی صنعت میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا کیونکہ فلمی صنعت کو تین حکومتی اداروں سے مالی اور فنکارانہ مدد ملتی ہے۔ 'کنگ عبدالعزیز سینٹر فار ورلڈ کلچرز‘ ایک نیا فلم کمیشن ہے جو سعودی ثقافتی امور کی وزارت اور 'بحیرہ احمر فلم فیسٹیول‘ کا نگران ادارہ ہے۔

’اسرائیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا لازمی جزو ہے‘

سعودی عرب کی نامور فلم ساز ھائیفا المنصور۔تصویر: Inga Kjer/dpa/picture alliance

 فلم بطور بہترین اسٹیج

ولی عہد شہزادہ سلمان نے ایک ٹی وی سیریز کی تیاری میں 64 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ کمرشل کمپنیاں جیسے کہ  نیٹ فلکس بھی سعودی عرب کے اسٹوڈیو' ٹیلفاز 11‘ کے ساتھ 'ملٹی پکچر پارٹنر شپ‘   کا آغاز کر رہا ہے۔  نیٹ فلکس  کے  مواد کے حصول کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور ترکی نوحہ التیب  کے مطابق،''ہم سعودی مواد سے اپنی لائبریری بڑھا رہے ہیں، مستند اور دلچسپ کہانیاں پیش کرنے کے لیے اپنے تخلیق کاروں کی شمولیت سے ایسی مواد پیش کرین گے، جس کی گونج  سعودی عرب اور دنیا بھر میں سنائی دے۔‘‘

جینیفر ہولائس/ ک م/ ع ح

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں