سعودی عرب کی يمن ميں کارروائی اور باغيوں کا جوابی حملہ
25 دسمبر 2021
سعودی عرب اور يمنی حوثی باغيوں کے مابين مسلح تنازعے ميں اس سال شدت ديکھی گئی ہے۔ حوثی باغی پچھلے چند برسوں ميں ماہانہ اڑتيس حملے کرتے آئے ہيں، جن کی اس سال اوسط تعداد 78 رہی۔
تصویر: AFP via Getty Images
اشتہار
يمن اور سعودی عرب ميں حملوں کے نتيجے ميں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہيں۔ جمعے کو رات گئے سعودی سرحدی شہر جازان ميں کيے گئے حملے ميں دو افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والا ايک شخص سعودی ہے جبکہ دوسرا يمنی۔ اس حملے ميں سات افراد زخمی بھی ہوئے، جن ميں سے چھ کا تعلق سعودی عرب ہی سے ہے جبکہ ايک بنگلہ ديشی شہری ہے۔ رياض حکومت نے اس حملے کا الزام حوثی باغيوں پر عائد کيا ہے تاہم فی الحال باغيوں نے اس بارے ميں کوئی بيان جاری نہيں کيا ہے۔
يمن ميں ايرانی حمايت يافتہ حوثی باغيوں اور سعودی قيادت ميں کوليشن فورسز کے مابين جنگ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس مسلح تنازعے ميں بالواسطہ يا بلاواسطہ اب تک 377,000 افراد کی جان جا چکی ہے۔ يمن ميں سن 2014 سے خانہ جنگی جاری ہے۔ حوثی باغی اقوام متحدہ اور رياض کی حمايت يافتہ حکومت کے خلاف برسرپيکار ہے۔ بعد ازاں سعودی قيادت ميں کوليشن فورسز نے يمن ميں باقاعدہ آپريشن شروع کيا، جو اب بھی جاری ہے۔
جمعے کو کوليشن افواج نے يمنی دارالحکومت صنعاء ميں ايک فوجی کيمپ کو نشانہ بنايا تھا۔ اس حملے ميں تين افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق اس حملے ميں چھ افراد زخمی بھی ہوئے۔
يمنی حوثی باغی وقفے وقفے سے سعودی ہوائی اڈوں اور تيل کی تنصيبات پر ڈرون حملے کرتے آئے ہيں۔ البتہ جمعے کی شب کيا گيا حملہ انسانوں جانوں کے ضياع کا باعث بنا، جو کہ کئی ماہ بعد ہوا ہے۔
واشنگٹن ميں قائم تھنک ٹينک 'سينٹر فار اسٹريٹيجک اينڈ انٹرنيشنل اسٹڈيز‘ نے اسی ہفتے يہ انکشاف کيا تھا کہ اس سال حوثی باغيوں کی جانب سے سعودی اہداف پر حملوں ميں دو گنا سے بھی زيادہ اضافہ ہوا ہے۔ سن 2016 سے سن 2021 کے درميان کا جائزہ ليا جائے تو باغيوں کی جانب سے ہر ماہ اوسطاً 38 حملے کيے جاتے رہے ہيں تاہم رواں سال يہ تعداد ماہانہ 78 رہی۔
’ہميں کہيں بھول نہ جانا‘
کورونا وائرس کے بحران کے باعث کئی عالمی مسائل و تنازعات آج کل عدم توجہ کا شکار ہيں۔ موسمياتی تبديلياں، کشمير ميں بندشيں، ليبيا ميں جنگ، شام ميں شورش اور افغانستان کی صورتحال سميت دنيا کو آج بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
موسمياتی تبديلياں
زمين کے درجہ حراست ميں اضافہ، بے لگام معاشی سرگرمياں، برف پگھلنے سے سطح سمندر ميں اضافہ، فضائی آلودگی، پلاسٹک کا بے دريغ استعمال، حياتياتی تنوع ميں کمی جيسے مسائل سے زمين کو خطرات لاحق ہيں۔ سائنسدان بارہا خبردار کر چکے ہيں کہ ان عوامل کو روکنے کے ليے وقت بہت محدود ہے۔ ايک مطالعے ميں يہ بات بھی سامنے آئی کہ انسانی سرگرمياں قدرتی ماحول کی تباہی کی ذمہ دار ہيں اور نئے نئے وائرسوں اور بيماريوں کی بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP/Imaginechina
ڈگمگاتی ہوئی افغان امن ڈيل
افغانستان ميں اٹھارہ سالہ جنگ کے خاتمے کے ليے حال ہی ميں امريکا اور طالبان کے مابين ڈيل طے ہوئی۔ البتہ کبھی قيديوں کے تبادلے پر اختلاف، کبھی مختلف افغان دھڑوں ميں عدم اتفاق تو کبھی وقفے وقفے سے حملوں کے باعث اس ڈيل کا مستقبل اب بھی غير واضح دکھائی ديتا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ افغانستان ميں دو ہزار کے قريب ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے جنگجو بھی سرگرم ہيں، جو امن و امان کی کسی بھی اميد کو توڑنے کے ليے سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
پاک بھارت کشيدگی اب بھی برقرار
پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان اور بھارت ميں کشيدگی رہی ہے۔ ان دنوں دونوں ترقی پذير ممالک کو وبا کا سامنا ہے البتہ سرحد پر صورتحال ميں اب بھی کوئی تبديلی نہيں ديکھی گئی۔ بھارتی فوج کا دعویٰ ہے کہ مارچ ميں پاکستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار فائرنگ کے چار سو سے زائد واقعات ريکارڈ کيے گئے۔ پاکستان نے بھی سال رواں ميں بھارت پر سات سو سے زائد مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کا الزام عائد کيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بے يار و مددگار کشميری عوام
کشمير ميں گزشتہ برس اگست ميں کيے گئے متنازعہ بھارتی اقدامات کے بعد سے لاک ڈاؤن نافذ تھا جبکہ موجودہ وبا ميں اس پر عملدرآمد اور بھی سخت کر ديا گيا ہے۔ بندشوں کے سبب کشميری عوام کی اقتصادی کمر ويسے ہی ٹوٹی ہوئی تھی۔ کام کاج، کاروبار ہر چيز پچھلے قريب نو ماہ سے بند پڑی ہے۔ وبا سے کشميريوں کے مسائل ميں اور زيادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
ايران کی پہلے سے تباہ حال معيشت، مزيد گراوٹ کا شکار
سن 2015 ميں طے پانے والی جوہری ڈيل سے امريکا کی يک طرفہ عليحدگی اور پابنديوں کی بحالی کے سبب ايرانی معيشت کا پہلے ہی بيڑا غرق ہو چکا تھا کہ وبا نے اسے مزيد نقصان پہنچايا۔ ايران مشرق وسطیٰ ميں کورونا کی وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای امريکی مدد ٹھکرا چکے ہيں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر امريکا مدد کرنا ہی چاہتا ہے، تو پابندياں اٹھائے، جسے امريکی صدر مسترد کر چکے ہيں۔
تصویر: khabaronline
روہنگيا مہاجرين کا بحران، آج بھی حل طلب
بنگلہ ديشی حکام نے اپريل کے اوائل ميں کوکس بازار ميں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر ديا۔ اس ضلعے ميں لگ بھگ ايک ملين روہنگيا مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ روہنگيا مہاجرين ميانمار ميں فوج کے مبينہ تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ ديش پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کئی رپورٹوں ميں ميانمار ميں کيے گئے اقدامات کا موازنہ ’نسل کشی‘ سے کر چکی ہے۔ اس معاملے پر عالمی فوجداری عدالت ميں کيس بھی جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
يمنی جنگ کے متاثرين لاکھوں
اقوام متحدہ يمن کے بحران کو موجود وقت کا ’بد ترين انسانی الميہ‘ قرار دے چکی ہے۔ پانچ برس سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں ايک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں جبکہ بے گھر ہونے والوں اور قحط کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد کئی ملين ميں ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے اپريل کے اوائل ميں دو ہفتوں کی جنگ بندی کا اعلان کيا تاہم يہ بدحالی کے خاتمے کے ليے ناکافی ہے۔
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency
شامی مسلح تنازعہ آج بھی جاری
شام ميں سن 2011 سے چلی آ رہی خانہ جنگی اب بھی ختم نہيں ہوئی ہے۔ ان دنوں صوبہ ادلب شامی و روسی جنگی طياروں کی بمباری کی زد ميں ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں صدر بشار الاسد کی افواج پر ماضی میں ایک واقعے میں کيميائی ہتھياروں کے استعمال کا الزام بھی پھر سے لگايا گيا۔ اقوام متحدہ شامی جنگ کے تمام فريقين پر انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کا الزام عائد کر چکی ہے۔
تصویر: AFP/O. H. Kadour
يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران
سن 2015 ميں مشرق وسطیٰ و شمالی افريقہ سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں کی يورپ آمد کے تناظر ميں شروع ہونے والا بحران ايک طرح سے آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں مہاجرين ترکی، لبنان، اردن اور يورپ کے مختلف ملکوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ ان میں سب سے برا حال يونانی جزائر پر موجود کيمپوں کا ہے، جن ميں پہلے ہی سے گنجائش سے کہيں زيادہ مہاجرين آباد تھے۔ وبا سے ان افراد کو شديد خطرات لاحق ہيں۔