سعودی عرب کے صحرائی علاقوں میں ریت کے ٹیلوں پر منعقدہ ڈاکار ریلی کے دوران گاڑیاں چلانے والی ٹیموں میں اس مرتبہ اسرائیلی شہری بھی شامل رہے۔ سعودی عرب میں ایک سال قبل یہ سوچنا بھی شاید قابل قبول نہیں ہوتا۔
اشتہار
ڈاکار ریلی میں اسرائیلیوں کی شرکت ایک ایسے وقت میں ممکن ہوئی ہے جب بعض عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ ریاض حکومت کی خاموش رضامندی نے ان تعلقات کی بحالی کے لیے راہ ہموار کی تھی۔
جنوری کے آغاز میں شروع ہونے والی ڈاکار ریلی 2021ء میں شرکت کے لیے کُل دس افراد اسرائیلی پاسپورٹ کے ساتھ سعودی عرب میں داخل ہوئے تھے۔ ایک ٹیم ممبر عمر پرل کے مطابق ان افراد میں اسرائیلی ڈرائیور، نیوی گیٹر اور سَپورٹ عملہ شامل تھا۔
تاہم ریلی کی ویب سائٹ نے ان ٹیموں کو بیلجیئم اور امریکا کی فہرست میں شامل کیا تھا، جو اسرائیلی شہریوں کی موجودگی کو عام نہ کرنے کی سرکاری حکمت عملی کا ایک ممکنہ اشارہ ہے۔
ایک غیر معمولی احساس
اس ریلی میں شرکت کے بارے میں ایک اسرائیلی ڈرائیور ڈینی پرل کہتے ہیں، ''یہ غیر معمولی احساس تھا - سینکڑوں کلومیٹر تک صرف ریت کے ٹیلے موجود تھے۔‘‘
اسرائیلی ڈرائیور ڈینی پرل مزید کہتے ہیں کہ ان ٹریکس پر وہ کب سے نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔ پَرل کے بقول، ''میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور میں ایک دن یہاں سیر کے لیے جا سکوں گا۔‘‘
خاموش رضامندی
فلسطین کے حامی سعودی عرب نے کئی عشروں سے اسرائیل کے ساتھ نہ صرف سرکاری تعلقات ترک کر رکھے ہیں بلکہ بعض سعودی علما کی جانب سے خصوصی طور پر یہودیوں کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ بھی معمول کی بات ہے۔
تاہم ریاض حکومت کی جانب سے گزشتہ سال امریکا کی ثالثی میں اسرائیل کے متعدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات کی باضابطہ بحالی کی مخالفت نہیں کی گئی۔ اس کے بعد اسرائیلی طیاروں کو سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔
ڈاکار ریلی، سینیگال سے سعودی عرب منتقلی
اس سالانہ ریلی کا آغاز سن 1978 میں پیرس سے سینیگالی دارالحکومت ڈاکار تک ریس کے طور پر ہوا تھا لیکن سکیورٹی خدشات کی وجوہات کی بناء پر سن 2009 میں یہ ریلی افریقہ سے منتقل کردی گئی۔ یہ ریس اب پوری طرح سے سعودی عرب میں منعقد کی جاتی ہے۔
ڈاکار ریلی 2021ء کا آغاز تین جنوری کو سعودی شہر جدہ سے ہوا اور جدہ میں رواں ہفتے پندرہ جنوری کے روز ریلی کا اختتام ہوا تھا۔ اسرائیلی لائٹ ویٹ گاڑی کی ٹیم 40 ویں پوزیشن جبکہ اسرائیلی ٹرک ٹیم 18ویں پوزیشن حاصل کرسکی۔ اس ریلی کا روٹ ریاض، حائل اور نئے میگا بزنس زون نیوم سے گزرتا ہے جو کہ فی الوقت بحر احمر کے شمالی حصے میں زیر تعمر ہے۔
ع آ / ع ب (روئٹرز)
صحرائے نمیب میں زندگی اور موت کی جنگ
شدید ترین گرمی، ٹھنڈیں راتیں، پانی اور خوراک کی کمی۔ صحرائے نمیب رہنے کے لیے ایک مشکل ترین جگہ ہے۔ جانیے ان مشکل حالات کے باوجود وہاں جانور کس طرح زندہ رہنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
تصویر: R. Dückerhoff
جو کچھ بھی ملے کھا لو
اس گرم ترین صحرائی موسم کا شتر مرغوں پر اثر نہیں ہوتا۔ نہ اڑنے والے یہ پرندے اپنی جسم میں درجہ حرارت ایسے کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ پسینے کی صورت میں پانی ضائع نہ ہو۔ ان کے معدے ایسی چیزیں بھی ہضم کر لیتے ہیں، جنہیں باقی جانور نہیں کر سکتے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/C. Hütter
گرمی میں ٹھنڈک
غزال افریقہ (جیمز بک) کی ناک میں خون کی ایسی باریک نالیوں کا ایک نیٹ ورک ہوتا ہے، جو گرم ہوا کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اس کا دماغ ٹھنڈا رہتا ہے۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے، جس وجہ سے یہ قدرتی طور پر زمینی تپش سے محفوظ رہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
رنگ ہی بدل لو
اگر گرمی بہت زیادہ بھی ہے تو یہ ناماکوا گرگٹ کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ سورج کی روشنی تیز ہونے کی صورت میں یہ اپنا رنگ انتہائی ہلکا کر لیتا ہے، جس سے روشنی منعکس ہو جاتی ہے۔ ریت کی شدید تپش سے بچنے کے لیے یہ وہاں موجود چھوٹے پتھروں پر چڑھ جاتے ہیں۔
تصویر: R. Dückerhoff
اونچائی پر تپش کی کمی
ڈون نامی اس چیونٹی کی ٹانگیں عام چیونٹیوں سے زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ تقریبا پانچ ملی میٹر ان اونچی ٹانگوں کا مقصد اسے ریت کی تپش سے بچانا ہے۔ یہ ٹانگیں اسے ریت کے پچاس فارن ہائیٹ سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے دور رہنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
تصویر: DW/B. Osterath
زیر زمین پناہ
صحرائے نمیب کی یہ چھپکلی دن کی روشنی سے بچنے کے لیے صرف رات کو باہر نکلتی ہے۔ دن کی روشنی میں یہ سرنگ بناتے ہوئے ریت کے نیچے چلی جاتی ہے۔ اس کے پاؤں ریت میں سرنگ کھودنے اور بھاگنے کے لیے بہترین ہیں۔
تصویر: R. Dückerhoff
رات کی مسافر
وائٹ لیڈی کے نام سے مشہور یہ مکڑی بھی دن کی روشنی سے پرہیز کرتی ہے۔ یہ ریت کے نیچے جا کر اپنے گرد ریشمی جالا بنا لیتی ہے تاکہ تپش سے محفوظ رہا جا سکے۔ یہ اپنے شکار کے لیے صرف رات کو باہر نکلتی ہے اور اپنا سفید رنگ مزید تیز کر لیتی ہے۔
تصویر: R. Dückerhoff
آسان زندگی گزارنے والا
اس بچھو کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہو آہستہ کھانا کھاؤ اور آہستہ ہضم کرو۔ اس بچھو کو زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں ہوتی اور کئی مہنیے بغیر شکار کے رہ سکتا ہے۔ اس بچھو میں خون اور آکسیجن کا نظام باقی بچھوؤں سے بالکل مختلف ہے اور یہ اسے گرمی سے بچاتا ہے۔
تصویر: R. Dückerhoff
ریت میں زندگی
یہ کینچوا ریت میں ’’تیرنے‘‘ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی ساری زندگی ریت کے ٹیلوں میں خوراک تلاش کرتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ اس کی خوراک انتہائی چھوٹے کیڑے ہوتے ہیں۔ یہ کیڑوں کے پاؤں سے ریت پر پیدا ہونے والی ارتعاش سے ان کا پتا چلا لیتا ہے۔
تصویر: R. Dückerhoff
پانی کی تلاش
اس خشک صحرا میں بھنورا ایک خاص طریقے سے پانی جمع کرتا ہے۔ صبح کی دھند میں یہ سر نیچے کر کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ دھند اس کی پشت پر لگنے کے بعد پانی کے قطروں میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پانی کے قطرے اس کے منہ کی طرف چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنے جسم کا چالیس فیصد تک حصہ پانی سے بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔