سعودی عرب کی یمن میں جنگ بندی کی پیشکش، حوثی باغیوں کا انکار
22 مارچ 2021
سعودی عرب نے برسوں سے خانہ جنگی کے شکار عرب ملک یمن میں حوثی باغیوں کو ملک گیر جنگ بندی کی پیش کش کر دی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کے مطابق اس سیز فائر پر عمل درآمد کی نگرانی اقوام متحدہ کو کرنا چاہیے۔
اشتہار
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے آج پیر کے روز کہا کہ ان کے ملک نے عرب دنیا کی غریب ترین ریاست اور کئی برسوں کی ہلاکت خیز خانہ جنگی سے تباہ حال یمن کے لیے ایک نئی امن پیش رفت شروع کی ہے، جس کا مقصد وہاں جنگ کا خاتمہ ہے۔
اشتہار
ہوائی اڈہ اور بندرگاہ کھولنے کی پیش کش
اس پیش رفت کے تحت ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں کو پورے یمن میں ایسی جنگ بندی کی پیش کش کی گئی ہے، جس کی نگرانی اقوام متحدہ کو کرنا ہو گی۔ مزید یہ کہ حوثی باغیوں کو صنعاء کے ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنے اور حدیدہ کی بندرگاہ کے راستے ایندھن اور اشیائے خوراک کی درآمد کی اجازت ہو گی۔ صنعاء کا ایئر پورٹ اور حدیدہ کی بندرگاہ دونوں باغیوں کے کنٹرول میں ہیں۔
پرنس فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ اسی پیش رفت کے تحت ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو سعودی عرب کی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے ساتھ اپنے امن مذاکرات بھی بحال کرنا ہوں گے۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا، ''یہ نئی امن پیش رفت حوثی باغیوں کے اس پر اتفاق کر لینے کے ساتھ ہی مؤثر ہو جائے گی۔‘‘
یمن کی چھ سالہ خانہ جنگی میں ریاض حکومت کی حمایت یافتہ ملکی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی اس پیش کش پر اپنے فوری رد عمل میں کہا کہ نئی سعودی امن پیش کش میں تو کچھ بھی نیا نہیں ہے۔
اس موقف کے باوجود حوثی باغیوں کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار محمد عبدالسلام نے تاہم کہا کہ حوثی ریاض حکومت، مسقط اور واشنگٹن کے ساتھ اپنی بات چیت اس لیے جاری رکھیں گے کہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے کسی نا کسی امن معاہدے تک پہنچنے کی راہ کھلی رہے۔
محمد عبدالسلام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''ہوائی اڈوں کو کھولنا اور بندرگاہوں کے دوبارہ استعمال کی اجازت یمنی عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کے عمل میں ان کا حق ہے، جسے دباؤ کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں کا، جن کے خلاف سعودی عرب نے اپنی قیادت میں کئی برسوں سے ایک بین الاقوامی عسکری اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے، کہنا ہے کہ یمن کی وہ فضائی اور سمندری ناکہ بندی ختم کی جانا چاہیے، جو ملک میں بدترین انسانی بحران کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
باغیوں کے مطابق اس ناکہ بندی کا خاتمہ ہی وہ اہم ترین پیشگی شرط ہے، جسے تسلیم کرنے کے بعد ہی جنگی فریقین کے لیے کسی امن معاہدے تک پہنچنا ممکن ہو سکتا ہے۔
سعودی قیادت میں عسکری اتحاد کا کہنا ہے کہ یمنی ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کی ناکہ بندی کا مقصد حوثی باغیوں کے لیے بیرون ملک سے ہتھیاروں کی ترسیل کو روکنا ہے۔
جنگ زدہ یمن میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کئی برسوں سے غذائی قلت کی شکار ہے۔ یہ تصاویر اس کے قبل از وقت موت سے زندگی کی طرف سفر کی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مصائب کے خطرناک ثبوت
بحیرہ احمر کے ساحلی شہر الحدیدہ میں اٹھارہ سالہ سعیدہ کی لی گئی یہ تصویر اس کی حالت زار کی عکاس ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وہاں غذائی قلت کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
ایک مسکراہٹ
سعیدہ کو دارالحکومت صنعاء میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال میں کئی ہفتوں کی نگہداشت کے بعد وہ کم از کم مسکرانے کے قابل ہو گئی تھی۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے اس موقع پر بھی اس کے لیے بولنا مشکل تھا۔ اس کے والدین ابھی تک پریشان ہیں کیوں کہ وہ صرف سیال طبی خوراک کھانے کے قابل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
زندگی بھر کا روگ
ڈاکٹروں کے خیال میں اس کی کمزور حالت نے اس کے حلق کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تو سعیدہ اپنی آنکھیں تک کھولنے کے قابل نہیں تھی اور نہ ہی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق سعیدہ کے جسم کو اس قدر نقصان پہنچ چکا ہے کہ ہڈیاں کبھی بھی دوبارہ نارمل نہیں ہوں گی۔
تصویر: Reuters/A. Zeyad
آخر کار وزن میں اضافہ
سعیدہ کے والد احمد ہسپتال میں اس کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی بیٹی کا وزن 16 کلوگرام ہو گیا ہے۔ جب اسے ہسپتال لایا گیا تھا تو اس کا وزن محض 11 کلوگرام تھا۔ مارچ دو ہزار پندرہ سے پہلے ہی سعیدہ کی حالت زیادہ بہتر نہ تھی لیکن یمنی بحران کی وجہ سے بھوک، غربت اور داخلی انتشار میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی عدم تحفظ
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یمن کی آبادہ تقریبا 28 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے تقریباﹰ نصف غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سات ملین یمنی ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تو انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آئندہ کھانا کب ملے گا۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
سعیدہ ہسپتال سے باہر
جنگ کی وجہ سے عرب دنیا کی غریب ترین یمنی قوم قحط کے دہانے پر کھڑی ہو چکی ہے جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد تین ملین سے بھی زائد ہے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے تعز اور الحدیدہ ہیں، جہاں سے سعیدہ کا تعلق ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کی ایک وجہ
یمن جنگ کے آغاز ہی میں اس ملک میں داخل ہونے والے بحری جہازوں کی آمد و رفت پر پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔ یمن کے ساحلوں پر اشیائے خورد و نوش لانے والے بحری جہازوں کی تعداد پہلے کی نسبت تقریبا نصف کم ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/F. Al Nassar
ادھر بھی توجہ دیں
یمنی خواتین غذائی قلت کے شکار ہونے والے بچوں کی تصاویر پر مبنی بینرز اٹھائے احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا یہ احتجاج اقوام متحدہ کے اس روڈ میپ کے خلاف ہے، جس میں حوثی باغیوں کا دارالحکومت چھوڑنے اور ایک نئے نائب صدر کا اعلان کیا گیا ہے۔ یمن جنگ میں کم از کم 10 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
یمن کی چھ سالہ خانہ جنگی میں محتاط اندازوں کے مطابق بھی اب تک تقریباﹰ ایک لاکھ تیس ہزار انسان مارے جا چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ملک کی 29 ملین کی مجموعی آبادی میں سے دو تہائی سے زائد شہری زندہ رہنے کے لیے امدادی سامان پر انحصار کرتے ہیں۔
یمن میں اسی جنگ کے باعث کم از کم چار ملین شہری بے گھر بھی ہو چکے ہیں جبکہ صحت عامہ کا ملکی نظام بھی، جو پہلے بھی بہت ترقی یافتہ نہیں تھا، طویل جنگ کی وجہ سے اتنی بری طرح متاثر ہوا ہے کہ ملک میں نصف کے قریب ہسپتال اور صحت عامہ کے مراکز یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا قابل استعمال نہیں رہے۔
م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی)
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔