سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں زور دار دھماکہ ہوا تاہم فوری طورپر اس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ سعودی حکام نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نا ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اشتہار
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں متعدد عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے منگل کے روز مقامی وقت کے مطابق ایک بجے سے ذرا پہلے دو زوردار دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز میں ریاض کے اوپر مبینہ طورپر ایک میزائل کو تباہ کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
عینی شاہدین نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کوبتایا کہ انہوں نے دھماکوں کی دو آوازیں سنیں اور فضا میں دھوئیں کے سیاہ بادل اٹھتے دیکھے۔
دھماکوں کی وجہ فوری طورپر معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم سعودی عرب کے سرکاری چینل العربیہ ٹی وی نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز کے حوالے سے کہا ہے کہ شہر کے اوپر ایک میزائل کو تباہ کر دیا گیا۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
سنیچر کے روز بھی حملہ
اس سے قبل سنیچر کے روز ریاض کو نشانہ بنا کرایک میزائل داغا گیا تھا۔
ہفتے کے روز یمن میں سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے کہا تھا کہ ریاض کی جانب بڑھنے والے ایک میزائل کو فضا میں ہی تباہ کردیا گیا۔
فوجی اتحاد کی جانب سے جاری کردہ مختصر بیان میں تباہ ہونے والے ہدف کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا جبکہ حوثی باغیوں نے کہا تھا کہ وہ حملے میں ملوث نہیں ہیں۔ البتہ ایک نامعلوم گروپ علویہ الوعد الحق نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سعودی عرب نے سن 2015 میں حوثیوں کے ذریعہ برطرف کردی جانے والی حکومت کو بحال کر نے کے لیے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی جس کے بعد سے ہی ایرانی حمایت یافتہ حوثیو ں نے سرحد پار سے ڈرون اور میزائل حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں وہ سعودی عرب کی تیل تنصیات اور سویلین ڈھانچوں کے نشانہ بناتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی اتحاد حوثیوں کے خلاف یمن کی عالمی سطح پر تسلیم کی جانے والی حکومت کی حمایت کرتا ہے۔