سعودی عرب کے ساتھ فضائی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، اسرائیل
19 جولائی 2017اسرائیلی وزیر برائے مواصلات ایوب قرا نے امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل کے مسلمان شہری جلد ہی تل ابیب کے بن گوریان انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے سیدھا سعودی عرب تک پرواز کرنے کے قابل ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ایسے اسرائیلی مسلمانوں کو دریائے اردن اور ریگستان کو عبور کرتے ہوئے تقریباﹰ ایک ہزار کلومیٹر کا طویل راستہ بس کے ذریعے طے کرنا پڑتا ہے۔
ابھی صرف دو ماہ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب سے پرواز کرتے ہوئے اسرائیل پہنچے تھے۔ اس پرواز سے پہلے تک سعودی عرب سے براہ راست اسرائیل کے لیے فلائٹ کو ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے ساتھ دشمنی سفارتی تعلقات نہ رکھنے والے ان دونوں ممالک کو قریب لے آئی ہے۔
بلوم برگ کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی لیکود جماعت سے تعلق رکھنے والے ایوب قرا کا ایک ہفتہ قبل ایک انٹرویو میں کہنا تھا، ’’حقیقت تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ ایسی درخواست دینے کے لیے مناسب وقت ہے اور میں اس پر انتہائی محنت سے کام کر رہا ہوں۔‘‘
تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب نے سن 2002ء کے عرب امن عمل کے موقع پر اس وقت تک دونوں ملکوں کے مابین فضائی اور تجارتی تعلقات قائم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا، جب تک اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر واپس نہیں چلا جاتا اور ایک علیحدہ فلسطینی ریاست قیام میں نہیں آ جاتی لیکن اب ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ نے دونوں ممالک کے مابین تعاون کو ایک ’کھلا راز‘ بنا دیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی کہہ چکے ہیں فلسطینیوں کے ساتھ امن ڈیل کے حوالے سے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔
ایوب قرا کے مطابق زائرین کے لیے حج کا سفر آسان بنانا ایسے متعدد مجوزہ منصوبوں میں سے ایک ہے، جن کا مقصد دونوں ملکوں کے مابین کسی نہ کسی طریقے سے بات چیت کا آغاز کرنا ہے۔ دوسری کئی ایک تجاویز میں تجارتی پابندیوں میں نرمی لانا، خلیجی ممالک کے ساتھ مواصلاتی رابطوں میں بہتری اور اسرائیلی ہوائی جہازوں کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس طرح اسرائیل کے ایشیا کے لیے جہازوں کا نام صرف وقت بچے گا بلکہ انہیں کم پیسے خرچ کرنا پڑیں گے۔
تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے لیے سابق ایڈوائزر اور انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز سے منسلک اسکاٹ لاسنسکی کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’اعتماد سازی کے اشارے کے طور پر حج کو استعمال کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے، جزوی طور پر اس وجہ سے کہ اس میں مذہب کی پاکیزگی شامل ہے۔ اب اس میں سیاست شامل ہے کیوں کہ مشرق وسطیٰ کی سرحدیں اب کھلی نہیں ہیں۔‘‘
ایوب قرا کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے سالانہ چھ ہزار عرب مسلمان شہری حج کے لیے سعودی عرب پہنچتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گروپوں کے صورت میں بسوں میں سفر کرتے ہیں جبکہ چند سو کو اردن کا ایئرپورٹ استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب پہنچنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
ایوب قرا کے مطابق بہترین تو یہ ہے کہ مکہ آنے والے زائرین کو تل ابیب سے براہ راست سعودی عرب آنے کی اجازت دی جائے لیکن روٹ پر مذاکرات ہو سکتے ہیں، اردن یا پھر کسی دوسرے ملک میں اسٹاپ اوور ہو سکتا ہے۔
ایوب کے مطابق اس بات پر بھی مذاکرات جاری ہیں کہ حج کے لیے آنے والے اسرائیلی زائرین کو اردن کی بجائے سعودی عرب کے عارضی پاسپورٹ جاری کیے جائیں۔ ایوب قرا کے بقول انہوں نے اس حج منصوبے کے حوالے سے سعودی عرب کے حکام، اردن اور دیگر ملکوں سے بات چیت کی ہے، ’’وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ ایک حساس معاملہ ہے اور ابھی اس پر مذاکرات جاری ہیں۔‘‘
سعودی عرب کی جنرل اتھارٹی آف سول ایوی ایشن نے فوری طور پر اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا کوئی بھی جواب نہیں دیا ہے۔ دوسری جانب ہوائی کمپنی رائل اردن کے ایک ترجمان نے کہا کہ اس معاملے کے بارے میں اسرائیلی حکام نے ایئر لائن سے کوئی بھی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم ترجمان کا کہنا تھا، ’’رائل اردن حج یا عمرہ کے لیے اسرائیلی مسلمانوں کو تل ابیب سے عمان لاتی ہے اور پھر عمان سے انہیں جدہ یا مدینہ پہنچا دیا جاتا ہے، واپسی بھی ایسے ہی ہوتی ہے۔‘‘