سعودی صحرا میں انسانی قدموں کے سوا لاکھ سال پرانے نشانات
18 ستمبر 2020
سعودی عرب میں ماہرین کو ایک صحرا سے انسانی قدموں کے ایک لاکھ بیس ہزار سال پرانے نشانات ملے ہیں۔ یہ سائنسی انکشاف زمین پر لاکھوں سال پہلے انسانی نقل و حرکت کے بارے میں بہت سے نئے حقائق سامنے لا سکتا ہے۔
اشتہار
یہ تفصیلات ایک ایسے نئی سائنسی تحقیق کا حصہ ہیں، جس کے نتائج معروف سائنسی تحقیقی جریدے 'سائنس ایڈوانسز‘ میں جمعرات سترہ ستمبر کو شائع ہوئے۔ ارضیاتی اور ماحولیاتی تاریخ کے ماہر سائنسدانوں نے انسانی قدموں کے جن انتہائی قدیم نشانات کی دریافت کی تصدیق کی ہے، ان کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار سال پرانے ہیں۔
نشانات صحرائے نفود میں ملے
قدموں کے ان قدیمی نشانات کو ایک ایسے خطہ زمین پر دریافت کیا گیا، جو موجودہ سعودی عرب کے شمال میں صحرائے نفود کا علاقہ کہلاتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ان انتہائی قدیم شواہد کے سائنسی مطالعے سے اب تک یہ اندازہ لگایا جا چکا ہے کہ یہ انسانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ایک ایسے سفر کی نشاندہی کرتے ہیں، جو اپنے جانوروں کے ساتھ پانی کے کسی ذریعے مثلاﹰ چھوٹی سے جھیل وغیرہ کے پاس رک بھی جایا کرتا تھا۔
سائنسی تحقیقی جریدے Science Advances میں شائع ہونے والے ان نتائج کے مطابق آج سے تقریباﹰ سوا لاکھ سال قبل زمین، خاص طور پر موجودہ سعوی عرب کے اس علاقے میں انسان ایسے سفر کرتے تھے کہ ان کے ہمراہ اونٹ، بھینسیں اور ایسے ہاتھی بھی ہوتے تھے، جو آج کل کے کسی بھی دوسرے جانور کے مقابلے میں کہیں بڑے ہوتے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق ممکن ہے کہ تب انسان بڑے بڑے ممالیہ جانوروں کا شکار بھی کرتا تھا لیکن تب وہ کسی بھی جگہ پر زیادہ دیر تک قیام نہیں کرتا تھا اس کے کسی طویل سفر کے دوران کسی بھی جگہ پڑاؤ کے لیے اہم عوامل میں سے نمایاں ترین کسی جگہ پر پانی کی موجودگی ہوتی تھی۔
نشانات انسانی قدموں کے بھی اور جانوروں کے بھی
اس سائنسی تحقیق کے شریک مصنف رچرڈ کلارک ولسن نے بتایا، ''صحرائے نفود سے صرف انسانی قدموں کے ہی نہیں بلکہ جانوروں کے پیروں کے نشانات بھی ملے ہیں اور ان کے آئندہ مطالعے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مزید مدد ملے گی کہ موجودہ نسل انسانی کے اجداد لاکھوں سال پہلے جب افریقہ سے نکل کر دنیا کے دیگر حصوں تک پھیلے تھے، تو اپنے اس سفر کے لیے انہوں نے کون کون سے راستے اختیار کیے تھے۔‘‘
آج کے جزیرہ نما عرب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسے وسیع اور بنجر صحراؤں سے بھرا پڑا ہے، جو زمانہ قدیم میں انسانی آبادی اور اس کی طرف سے شکار کیے جانے والے جانوروں کے لیے انتہائی ناموافق تھے۔
اس بارے میں رچرڈ کلارک ولسن کہتے ہیں، ''ماضی میں کچھ ادوار ایسے بھی تھے کہ جزیرہ نما عرب کے اندرونی حصے میں بہت سے صحرا وسیع سرسبز علاقوں سے بھرے ہوئے خطے تھے اور وہاں مستقل طور پر تازہ پانی کی کئی جھیلیں اور دریا بھی تھے۔‘‘
الآثار جھیل کی باقیات
اس رپورٹ کے بنیادی مصنف میتھیو سٹوارٹ ہیں، جن کا تعلق جرمنی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے کیمیائی ماحولیات سے ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کہا، ''انسانی قدموں کے یہ انتہائی قدیم نشانات میں نے 2017ء میں اپنی پی ایچ ڈی کے لیے تحقیق کے عمل میں فیلڈ ورک کے دوران دریافت کیے تھے۔‘‘
ازمنہ فراعین کے حنوط شدہ لاشوں والے درجنوں تابوتوں کی دریافت
مصر میں ماہرین آثار قدیمہ کو فراعین کے دور کے ایسے درجنوں تابوت ملے ہیں، جو آج بھی بہت اچھی حالت میں ہیں۔ جنوبی مصر میں تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی حنوط شدہ لاشوں والے یہ تیس تابوت الاقصر میں کھدائی کے دوران ملے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
آثار قدیمہ کا بیش قیمت خزانہ
ہزاروں سال پرانے لکڑی کے یہ تیس تابوت اور ان میں بند حنوط شدہ انسانی لاشیں اب تک تقریباﹰ اپنی اصلی حالت میں ہیں۔ ماہرین ان قدیمی نوادرات کی دریافت کو جدید آرکیالوجی کے لیے انتہائی سنسی خیز واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ مصر میں گزشتہ تقریباﹰ سوا سو سال کے دوران یہ اپنی نوعیت کی عظیم ترین دریافت ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
تین ہزار سال تک انسانی آنکھوں سے اوجھل
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان میں سے پہلا تابوت زمین سے صرف ایک میٹر کی گہرائی میں دریافت ہوا اور اس کے بعد جب مزید کھدائی کی گئی، تو وہاں قریب ہی ایک قطار کی صورت میں انتیس دیگر تابوت بھی رکھے ہوئے ملے۔ قدیم انسانی تہذیب کی شاہد یہ باقیات تین ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک انسانی آنکھوں سے اوجھل رہیں۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
اگلے سال سے نمائش کے لیے میوزیم میں
یہ نوادرات جنوبی مصر میں آثار قدیمہ کے خزانوں کا عظیم مدفن سمجھے جانے والے علاقے الاقصر میں العساسیف نامی اس قدیمی قبرستان سے ملے، جہاں سے پہلے بھی بہت سے نوادرات مل چکے ہیں۔ قاہرہ حکومت کے مطابق ان نودریافت شدہ نوادرات کو 2020ء میں دوبارہ کھولے جانے والے اور زیادہ بڑے بنا دیے گئے ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے رکھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
تاریخی اسرار کو سمجھنے کی کوشش
مصر میں 1898ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ ازمنہ قدیم کے اور حنوط شدہ لاشوں والے اتنے زیادہ تابوت اکٹھے ملے ہیں، جو آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ لکڑی کے یہ تابوت ایسے تیار کیے گئے تھے کہ ان کے اندر اور باہر رنگا رنگ نقش و نگار بھی بنے ہیں اور ان پر کھدائی بھی کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
بچوں، کاہن مردوں اور عورتوں کے تابوت
ہزاروں سال قبل یہ تابوت تب انتقال کر جانے والے بچوں اور سماجی طور پر مذہبی رہنماؤں یا کاہنوں کا کردار ادا کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اسی لیے یہ سب تابوت ایک سائز کے نہیں ہیں۔ ان تابوتوں میں محفوظ حنوط شدہ انسانی لاشوں کا تعلق فرعونوں کے دور کے 22 ویں حکمران خاندان سے ہے، جس کا اقتدار تین ہزار سال سے بھی پہلے شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
گرینڈ ایجِپشن میوزیم
ان درجنوں نئے نوادرات کو جلد ہی گیزا کے اہرام کے قریب ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ آج کل اس عجائب گھر کو شائقین کے لیے کھولنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مصر میں دریائے نیل کے کنارے ’بادشاہوں کی وادی‘ کہلانے والے علاقے میں ان تابوتوں کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد انہیں کھدائی کر کے زمین سے نکالنے میں تقریباﹰ دو ماہ لگے۔
تصویر: AFP/Getty Images
6 تصاویر1 | 6
میتھیو سٹوارٹ کے بقول سعودی عرب کے صحرائے نفود میں اس نشانات کی دریافت اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ عربی زبان میں 'الآثار' کہلانے والی ماضی کی ایک قدیم اور خشک ہو چکی جھیل کی جگہ پر ارضیاتی تبدیلیوں اور قدرتی طریقے سے ریت اور مٹی ہٹ جانے کے بعد یہ نشانات واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔‘‘
سینکڑوں نشانات میں سے کئی انسانوں کے
انسانی قدموں کے ان انتہائی قدیم نشانات کی عمر کے تعین کے لیے ماہرین نے ایک ایسا طریقہ استعمال کیا، جو optical stimulated luminescence کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر قدموں، پیروں اور کھروں کے ان نشانات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان میں سے کم از کم سات نشانات تو یقینی طور پر انسانی قدموں کے نشان ہیں۔
ان میں سے بھی چار نشانات ایسے ہیں، جن کا سائز، سمت اور ایک دوسرے سے فاصلہ دیکھا جائے، تو یہ تصدیق ہو جاتی ہے کہ وہ دو یا تین ایسے انسانوں کے قدموں کے نشانات ہیں، جو آج سے ایک لاکھ بیس ہزار سال قبل وہاں مل کر اور اپنے جانوروں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔
م م / ک م (اے ایف پی)
سعودی عرب کے تاراج شہر میں خوش آمدید
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک کے دروازے سب کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں سیاح آثار قدیمہ کا ایک نایاب خزانہ دیکھنے کے قابل ہوں گے۔ العلا نامی یہ قدیمی نخلستان ملک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم تہذیب
العلا کبھی خطے کے مختلف تجارتی راستوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ اس مقبرے کی طرح یہ علاقہ آثار قدیمہ کے خزانے سے بھرا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک سو گیارہ مقبرے
مدائن صالح سعودی عرب کے مشہور شہر مدینہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ العلا کے مضافات میں واقع یہ آثار قدیمہ سن دو ہزار آٹھ سے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔ دو ہزار برس پہلے یہاں پتھروں کو تراشتے ہوئے ایک سو گیارہ مقبرے بنائے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
انجینئرنگ کا بہترین نمونہ
قدیم دور میں یہ قوم الانباط کا مرکزی اور تجارتی علاقہ تھا۔ یہ قوم اپنی زراعت اور نظام آبپاشی کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہ قوم نظام ماسيليات (ہائیڈرالک سسٹم) کی بھی ماہر تھی اور اس نے اس خشک خطے میں پانی کے درجنوں مصنوعی چشمے تیار کیے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
قدیم زمانے کے پیغامات
قدیم دور کا انسان کئی پیغامات پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ یہ وہ جملے ہیں، جو دو ہزار برس پہلے کنندہ کیے گئے تھے۔ امید ہے سیاح انہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
مل کر حفاظت کریں گے
سعودی ولی عہد نے فرانس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر ایسے قدیم شہروں کی حفاظت کریں گے تاکہ آئندہ نسلیں بھی ان کو دیکھ سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
ایک نظر بلندی سے
اس کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے پہلے اس سے متعلقہ تمام اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ مارچ میں پیمائش کے دو سالہ پروگرام کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ڈرونز اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سیاحوں کے لیے ویزے
ابھی تک صرف مخصوص شخصیات کو ہی ان آثار قدیمہ تک جانے کی اجازت فراہم کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار پندرہ میں برطانوی پرنس چارلس کو العلا میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب سعودی عرب تمام سیاحوں کی ایسے اجازت نامے فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/J. Stillwell
قیام گاہوں کی کمی
تین سے پانچ برسوں تک تمام سیاحوں کی رسائی کو العلا تک ممکن بنایا جائے گا۔ ابھی یہ شہر سیاحوں کی میزبانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ فی الحال وہاں صرف دو ہوٹل ہیں، جن میں ایک سو بیس افراد قیام کر سکتے ہیں۔