سعودی عرب کے لیے براہ راست حج پروازیں زیر غور، اسرائیل
3 مئی 2023
اسرائیل نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے لیے براہ راست حج پروازیں شروع کرنے کے بارے میں مشاورت جاری ہے۔ اگر یہ امکان عملی شکل اختیار کر گیا تو یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین معمول کے تعلقات کے قیام کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا۔
اشتہار
یروشلم سے بدھ تین مئی کے روز ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ سعودی حکام حج کی نیت سے سعودی عرب جانے کے خواہش مند مسلمانوں کو لانے والی اسرائیلی فضائی کمپنیوں کی پروازوں کو اپنے ہاں اترنے کا اجازت دے دیں گے۔
اسرائیل نے یہ بات اس تناظر میں کہی ہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان حج کے مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے اگلے ماہ سعودی عرب جائیں گے۔ ان حجاج میں ہر سال اسرائیل سے سعودی عرب جانے والے عرب مسلم شہریوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہوتی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ ممکنہ روابط سے متعلق سعودی موقف
اسرائیل نے 2020ء میں امریکہ کی ثالثی کوششوں کے نتیجے میں خلیجی عرب ریاستوں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ساتھ چند دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ بھی باقاعدہ دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کا جو معاہدہ کیا تھا، اس پر عمل درآمد سعودی عرب کی خاموش سیاسی رضامندی کے ساتھ ہی ممکن ہو سکا تھا۔
رواں سال دنیا بھر سے تقریباً دس لاکھ مسلمانوں نے فریضہ حج ادا کیا۔ گزشتہ دو برسوں میں یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سن 2020 میں صرف ایک ہزار جبکہ گزشتہ برس 60 ہزار خوش قسمت مسلمانوں کو حج کا موقع ملا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
خطبہ حج
اس برس حج کا خطبہ شیخ محمد بن الکریم العیسٰی نے دیا جسے براہ راست چودہ زبانوں میں نشر کیا گیا۔ اسرائیل نواز سمجھے جانے والے شیخ عیسی کا کہنا تھا کہ منافرت اور بغض سے اجتناب اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور مسلم امت کو چاہیے کہ ایک دوسرے سے شفقت کا معاملہ رکھے۔ خطبہ حج یوم عرفہ کو مسجد نمرہ میں دیا جاتا ہے۔
تصویر: MOHAMMED AL-SHAIKH/AFP/Getty Images
حج اکبر
امسال کے حج کو حج اکبر کہا گیا کیونکہ یوم عرفہ جمعہ کے روز تھا۔ عرفات کے میدان میں قیام حج کا اہم رکن ہے۔ یہیں جبل رحمت ہے جہاں سے پیغمبر اسلام نے آخری خطبہ حج دیا تھا۔ عازمین یہاں خصوصی دعائیں اور رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔
تصویر: MOHAMMED AL-SHAIKH/AFP/Getty Images
اسلام کا اہم رکن
فریضہ حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔ ہر بالغ صاحب اسطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے عام طورپر25 سے 30 لاکھ کے درمیان مسلمان فریضہ حج ادا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اس مرتبہ چیچنیا کے صدر رمضان قادروف نے بھی فریضہ حج ادا کیا۔
تصویر: Amr Nabil/AP/picture alliance
شیطان کو کنکریاں مارنا
رمی جمرات یعنی شیطان کو کنکریاں مارنا مناسک حج کا ایک رہم رکن ہے۔ ماضی میں رمی جمرات کے دوران بھگدڑ کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ سعودی حکومت نے عازمین کی سہولت اور بھیڑ کو بہتر طورپر منظم کرنے کے لیے کئی پلوں کی تعمیر سمیت متعدد اقدامات کیے ہیں۔
تصویر: MAHMUD HAMS/AFP via Getty Images
خواتین کو محرم کے بغیر اجازت
سعودی عرب حکومت نے خواتین کو محرم کے بغیر فریضہ حج کی ادائیگی کی اجازت دے دی ہے۔ اسے ولی عہد محمد بن سلمان کے اصلاحی اقدامات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ تاہم بغیر محرم کے حج کے لیے خواتین کی عمر 45 برس سے زیادہ ہونا چاہیے۔
حج کے دوران چند دنوں کے لیے منی میں خیموں کا سب سے بڑا شہر آباد ہو جاتا ہے۔ منی میں قیام حج کے ارکان میں سے ایک ہے۔ اس تصویر میں پس منظر میں نظر آنے والی مسجد 'مسجد خیف' ہے۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
سعودی عرب کی آمدنی کا اہم ذریعہ
حج اور عمرہ سے ہونے والی آمدنی سعودی عرب کی معیشت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ عام حالات میں اس سے اسے سالانہ تقریباً 12ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ حج کے لیے ایک شخص کو اوسطاً کم از کم 5000 ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
لیکن اس پیش رفت کے بعد خود سعودی عرب نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ باہمی تعلقات کے قیام اور اسرائیل کے ریاستی وجود کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ اس لیے نہیں کیا کہ ریاض حکومت کے مطابق ایسی کسی بھی پیش رفت سے قبل فلسطینیوں کی اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست فلسطین کے قیام کا مسئلہ حل کیاجانا چاہیے۔
اشتہار
سعودی عرب اور ایران کے مابین نئی قربت
یہ کہ سعودی عرب ممکنہ طور پر جلد ہی اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ روابط قائم کر لے گا، اس امکان کو خطے میں دو طرح کی پیش رفت سے قدرے نقصان پہنچا ہے۔ ان میں سے ایک تو ریاض حکومت کے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ قدرے کچھاؤ کا شکار تعلقات ہیں اور دوسری ایران اور سعودی عرب کے مابین ہونے والی حالیہ پیش رفت۔
ایران اسرائیل کا بڑا حریف ملک ہے اور ماضی میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بھی بہت ہی کشیدہ رہے ہیں۔ لیکن ابھی حال ہی میںچین کی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے اپنے روابط میں بہتری کے لیے جس اتفاق رائے کا اظہارکیا، اس پر اسرائیل بھی ناخوش ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں اس وقت وزیر اعظم نیتن یاہو کی قیادت میں ایک ایسی حکومت اقتدار میں ہے، جسے دائیں بازو کی سخت گیر حکومت کہا جاتا ہے۔
ان حالات میں موجودہ سیاسی عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ توقع کرنا بہت زیادہ امید پسندی ہی ہو گی کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین جلد ہی دوطرفہ روابط قائم ہو سکیں گے۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم کا بیان
موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے پیش رو اور سیاسی طور پر مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان یائر لاپیڈ نے اس سال 10 مارچ کے روز کہا تھا کہ انہوں نے گزشتہ برس ہی اسرائیلی سربراہ حکومت کے طور پر اس بارے میں سعودی حکومت کی رضا مندی حاصل کر لی تھی کہ اسرائیل سے پہلی مرتبہ حج پروازیں براہ راست اس خلیجی ریاست میں جا سکیں۔
اسرائیل اکثریتی طور پر یہودی آبادی والا ملک ہے لیکن مسلمان وہاں کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں، جن کا قومی آبادی میں تناسب تقریبطاﹰ 18 فیصد بنتا ہے۔
سعودی عرب کے مقدس مقام مکہ میں اہم اسلامی عبادت حج کی ادائیگی ہر سال کی جاتی ہے۔ حج کے اجتماع کو بڑے مذہبی اجتماعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ رواں برس کے حج کے دوران سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی تعداد
زائرین سعودی شہر مکہ میں واقع خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مذہب کا سب سے مقدس ترین مقام ہے۔ ہر مسلمان پر ایک دفعہ حج کرنا واجب ہے، بشرطیکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہوا۔ سن 1941 میں حج کرنے والوں کی تعداد محض چوبیس ہزار تھی جو اب سفری سہولتوں کی وجہ سے کئی گنا تجاوز کر چکی ہے۔ رواں برس یہ تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
خانہٴ کعبہ کا طواف
دوران حج زائرین مختلف اوقات میں خانہٴ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کو چومنے کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ایک طواف کی تکمیل میں سات چکر شمار کیے جاتے ہیں۔ استعارۃً خانہ کعبہ کو اللہ کا گھر قرار دیا جاتا ہے۔ زائرین طواف کے دوران بلند آواز میں دعائیہ کلمات بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
چون ملین حاجی
گزشتہ پچیس برسوں کے دوران حج کرنے والوں کی تعداد چون ملین کے قریب ہے۔ سعودی حکام کا خیال ہے کہ سن 2030 تک سالانہ بنیاد پر مکہ اور مدینہ کے زیارات کرنے والے زائرین کی تعداد تیس ملین کے قریب پہنچ جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
اسی لاکھ قرآنی نسخے
سعودی عرب کے محکمہٴ حج کے مطابق ہر روز مختلف زبانوں میں ترجمہ شدہ قرآن کے اسی لاکھ نسخے مختلف ممالک کے زائرین میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مقدس مقامات میں افراد کو حسب ضرورت مذہبی وظائف کی کتب بھی پڑھنے کے لیے دی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
دو ہزار اموات
حج کے دوران دہشت گردی کے خطرے کو سعودی سکیورٹی حکام کسی صورت نظرانداز نہیں کرتے لیکن مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچھے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے خوفناک سن 2015 کی بھگدڑ تھی، جس میں دو ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ سعودی حکام اس بھگدڑ میں ہلاکتوں کی تعداد محض 769 بیان کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
خصوصی ایمبیولینس سروس
مناسک حج کی ادائیگیوں کے دوران پچیس مختلف ہسپتالوں کو چوکس رکھا گیا ہے۔ تیس ہزار ہنگامی طبی امدادی عملہ کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے الرٹ ہوتا ہے۔ ہنگامی صورت حال کے لیے 180 ایمبیولینسیں بھی ہر وقت تیار رکھی گئی ہیں۔ شدید گرمی میں بھی کئی زائرین علیل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Sahib
تین ہزار وائی فائی پوائنس
رواں برس کے حج کے دوران سولہ ہزار ٹیلی کمیونیکیشن ٹاور تعمیر کیے گئے ہیں۔ انہیں تین ہزار وائی فائی پوائنٹس کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح رواں برس کے حج کو ’سمارٹ حج‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
ہزاروں خصوصی سول ڈیفنس اہلکاروں کی تعیناتی
رواں برس کے حج کے دوران ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ اٹھارہ ہزار شہری دفاع کے رضاکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار مختلف مقامات پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی آمد کا سلسلہ
مناسک حج کی عبادات میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے بذریعہ ہوائی جہاز اور ہمسایہ ممالک سے زمینی راستوں سے لاکھوں افراد سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ صرف چودہ ہزار انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک پروازیں سعودی ہوائی اڈوں پر اتری ہیں۔ اکیس ہزار بسوں پر سوارہو کر بھی زائرین سعودی عرب پہنچے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
9 تصاویر1 | 9
ریاض حکومت نے تاحال تصدیق نہیں کی
اسرائیل سے سعودی عرب کے لیے براہ راست حج پروازوں کے اجرا سے متعلق جب اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آیا ایسی اولین مسافر پروازیں اسی سال حج کے موقع پر یعنی اگلے ماہ ہی عمل میں آ سکیں گی، تو انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سعودی عرب سے درخواست کی جا چکی ہے۔
ایلی کوہن نے اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''یہ معاملہ اس وقت زیر بحث ہے۔ میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ آیا اس بارے میں کوئی پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ لیکن میں اس حوالے سے پرامید ہوں کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ مل کر امن کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔‘‘
سعودی حکومت نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی کہ آیا وہ اسرائیل کے ساتھ براہ راست حج پروازیں شروع کیے جانے کے معاملے میں کوئی بات چیت کر رہی ہے۔
اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے مسلمان شہری حج کے لیے سعودی عرب آ تو سکتے ہیں مگر براہ راست فضائی رابطے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی تیسرے ملک کے راستے ہی سعودی عرب پہنچتے اور وہاں سے واپس جاتے ہیں۔
م م / ش ر (روئٹرز)
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔