سعودی سرکاری میڈیا کے مطابق ملکی فوج نے یمنی بندرگاہ حدیدہ کے قریب بعض کشتیوں کو نشانہ بنایا ہے جو ریموٹ سے کنٹرول کی جاتی تھیں۔
اشتہار
سعودی عرب کی قیادت میں قائم عسکری اتحاد کے مطابق کشتیوں کے علاوہ چار ایسے مقامات پر بھی حملے کیے گئے، جہاں انہیں لنگر انداز کیا جاتا تھا۔ اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بغیر کسی انسان کے چلنے والی ان کشتیوں کی کتنی تعداد کو تباہ کیا گیا۔ اتحاد کے بیان میں واضح کیا گیا کہ جن مقامات کو تباہ کیا گیا وہاں سے سمندری گزرگاہوں میں بارودی سرنگیں بچھانے کا سلسلہ بھی شروع کیا جا سکتا تھا۔
عسکری اتحاد نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی کشتیوں کے خلاف کی جانے والی یہ کارروائی بروقت تھی اور حقیقت میں دہشت گردی کے ایک بڑے منصوبے کو نابود کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس فوجی مشن کا مقصد سمندر میں آزادانہ نقل و حرکت کو تحفظ دینا ہے۔
جمعہ بیس ستمبر کو حوثی ملیشیا نے سعودی فوجی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقائی صورت حال کو مزید کشیدہ کرنے کے برابر ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ حدیدہ کے قرب وجوار میں سعودی حملوں کا تسلسل سویڈن سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یمنی بندرگاہ حدیدہ کے قریبی سمندری علاقے میں یہ کارروائی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب سعودی تیل کی تنصیبات پر مبینہ ایرانی حملوں کے بعد خطے کی صورت حال انتہائی کشیدہ ہے۔ ایران سعودی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی تردید کرتا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری یمن کی حوثی ملیشیا قبول کر چکی ہے لیکن امریکا اور سعودی عرب کا اصرار ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔
دوسری جانب امریکی فوج کا صدر دفتر پینٹاگون آج جمہ بیس ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے حوالے سے مختلف فوجی امکانات سے آگاہ کرے گا۔ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ایرانی حملے کے تناظر میں کوئی امریکی لائحہ عمل طے کرنے کے حوالے سے مختلف عسکری منصوبوں کی تفصیلات اس بریفنگ میں صدر کے سامنے پیش کی جائیں گی۔
وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس میٹنگ میں ایران کے اندر مختلف اہداف کو ممکنہ طور پر نشانہ بنانے کے آپشن بھی شامل ہے۔ خلیج فارس کی کشیدہ صورت حال کے تناظر میں ایران نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی عسکری مہم جوئی کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔
ع ح ⁄ ا ب ا (اے ایف پی، اے پی)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔