سعودی عسکری اتحاد کے اپنے ہی سابقہ یمنی اتحادیوں پر بڑے حملے
11 اگست 2019
خانہ جنگی کے شکار ملک یمن میں سعودی عسکری اتحاد نے اپنے ہی سابقہ اتحادیوں پر بڑے فضائی حملے کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں تازہ لڑائی میں مزید کم از کم چالیس افراد ہلاک اور ڈھائی سو کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔
عدن میں جنوبی عبوری کونسل کے علیحدگی پسند جنگجوتصویر: Getty Images/AFP/N. Hasan
اشتہار
یمن کے شہر عدن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کی طرف سے عدن میں صدارتی محل پر کیا جانے والا قبضہ سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحادکی طرف سے ان علیحدگی پسندوں کے خلاف شدید نوعیت کے فضائی حملوں کی وجہ بنا۔ اس نئی پیش رفت کو سعودی حکومت کے لیے عسکری حوالے سے ایک بڑا دھچکا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ عرب دنیا کے اس غریب ترین اور کئی سالہ خانہ جنگی سے تباہ حال ملک میں اب سعودی عرب کی سربراہی میں قائم عسکری اتحاد اپنی انہی سابقہ اتحادی قوتوں کے خلاف ہو گیا ہے، جو ماضی میں صدر منصور ہادی کی حلیف تھیں۔ ان حملوں سے قبل ان عسکری طاقتوں نے عدن کے بندرگاہی شہر کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔
خانہ جنگی میں ایک خطرناک موڑ
یمنی خانہ جنگی میں اس بات کو ایک نیا اور انتہائی خطرناک موڑ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنوبی یمن میں مسلح جنگجوؤں کی وہ عبوری کونسل جو ایس ٹی سی (سدرن ٹرانزیشنل کونسل) کہلاتی ہے، پہلے صدر منصور ہادی کی مخالف حوثی شیعہ ملیشا کے خلاف لڑ رہی تھی لیکن اب اس نے نہ صرف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں بلکہ وہ جنوبی یمن میں اپنی ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی خواہش مند بھی ہے۔
یہ علیحدگی پسند ملیشیا جنوبی یمن میں بہت فعال ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/N. El-Mofty
ریاض حکومت کی طرف سے ان یمنی علیحدگی پسندوں کے خلاف نئے فضائی حملوں کے بعد کہا گیا کہ ان کارروائیوں میں ان علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جو صدر منصوری ہادی کی حکومت کے لیے 'براہ راست خطرہ‘ تھے۔ اس بارے میں سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن نے عسکری اتحاد کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا، ''یہ حملے پہلی براہ راست کارروائی تھے، جس کے بعد آئندہ ان علیحدگی پسندوں کے خلاف مزید کارروائیاں بھی کی جائیں گی۔‘‘
یمن کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر منصور ہادیتصویر: picture-alliance/dpa
ساتھ ہی جنوبی یمن کی عبوری کونسل کے جنگجوؤں کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب بھی ان کے پاس ایک آخری موقع ہے کہ وہ اپنی عسکری پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ جائیں۔ دوسری طرف اس نئی صورت حال پر غور اور یمن کے مسلح تنازعے کے خاتمے کی کوششوں کے لیے ریاض حکومت نے ایک ہنگامی سربراہی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
سعودی قیادت کے لیے دھچکا
جنوبی یمن کے مسلح علیحدگی پسندوں نے کل ہفتہ دس اگست کو عدن شہر پر حملہ کر کے تین فوجی چھاؤنیوں اور صدارتی محل کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس دوران انہیں مبینہ طور پر کسی بڑی عسکری مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس لیے کہ تینوں چھاؤنیوں اور صدارتی محل میں موجود مسلح دستوں نے یا تو یہ سب جگہیں بغیر لڑے ہوئے ہی خالی کر دی تھیں یا پھر وہ جزوی طور پر ان علیحدگی پسندوں سے مل گئے تھے۔
سعودی عرب کے لیے، جو یمن کی خانہ جنگی میں 2015ء سے صدر منصور ہادی کا اتحادی اور ایران نواز حوثی باغیوں کا مخالف ہے، یہ صورت حال اس لیے بھی ایک بڑا جھٹکا ہے کہ حوثی باغیوں نے جب صنعاء پر قبضہ کیا تھا تو یمن کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ صدر ہادی فرار ہو کر عدن چلے گئے تھے۔ تب سے انہوں نے عدن کو ہی اپنی انتظامیہ کا عبوری دارالحکومت بنا رکھا ہے۔ یوں سعودی رہنماؤں کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ صنعاء پر حوثیوں کا قبضہ ہو اور عدن پر بھی جنوب کے علیحدگی پسند قابض ہو جائیں۔
عدن پر قبضہ 'بغاوت‘
اسی دوران صدر منصور ہادی، جو اپنی حکومت کے زیادہ تر وزراء کے ساتھ سعودی دارالحکومت ریاض میں مقیم ہیں، کی حکومت نے عدن پر ایس ٹی سی کے علیحدگی پسندوں کے قبضے کو 'حکومت کے خلاف بغاوت‘ کا نام دیا ہے۔ دریں اثناء حوثی باغیوں کی قائم کردہ متوازی انتظامیہ میں نائب وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز حسین العزی نے کہا ہے کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ یمن میں اثر و رسوخ کی حامل تمام قوتیں آپس میں سنجیدہ مذاکرات شروع کریں تاکہ اس ملک کو ایک 'وفاقی ریاست‘ بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ''یمن کو ایک ایسی وفاقی ریاست ہونا چاہیے، جس میں تمام دھڑوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہو۔‘‘
م م / ع ح / روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔