سعودی فوجی اتحاد میں شرکت، پاکستان میں احتجاجی مظاہرے
8 جنوری 2016آج پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں سینکڑوں افراد نے پاکستان کی سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لے۔ اس موقع پر مظاہرین کی طرف سے دفتر خارجہ کو ایک یادداشت بھی پیش کی گئی۔
جمعے کے دن خاتون شیعہ کارکن گلِ زہرا کا ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ نہ تو پاکستانی فوج اور نہ ہی پاکستانی قوم کرایے پر دستیاب ہے۔ ہم ہر اس اقدام کی مخالفت کریں گے، جس کے تحت آرمی کو چند ارب ریال کی خاطر آل سعود کو بیچنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘
پاکستان نے جمعرات کو ہی اعلان کیا تھا کہ وہ اسلامی دنیا میں ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کے فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کرے گا۔ پاکستان نے یہ اعلان سعودی وزیر خارجہ وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر کی اسلام آباد میں پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد کیا تھا۔
سعودی عرب نے چونتیس ملکی اس فوجی اتحاد کا اعلان گزشتہ ماہ کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان اس کا حصہ ہوگا۔ اس کے بعد پاکستان نے محتاط ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے ابھی مزید تفصیلات کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ پاکستان کی اس اتحاد میں شرکت کس حد تک ہو گی۔
اسی طرح اسلام آباد میں ایک دوسری ریلی بھی نکالی گئی، جس میں تقریباﹰ پندرہ سو افراد شریک تھے۔ یہ احتجاجی مظاہرہ خاص طور پر سعودی عرب میں شیعہ مذہبی رہنما النمر باقر النمر کو دی گئی موت کی سزا کے خلاف کیا گیا تھا۔ اس مذہبی رہنما کو دی گئی موت کی سزا کے بعد پھانسی کے بعد سے دونوں ملکوں ایران اور سعودی عرب میں پہلے ہی سے پائے جانے والے اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی اکثریتی آبادی سنی عقیدےسے تعلق رکھتی ہے جبکہ آبادی کا تقریباﹰ بیس فیصد حصہ شیعہ اقلیت پر مشتمل ہے۔ سعودی اتحاد کے خلاف چھوٹے پیمانے پر ریلیوں کا انعقاد آج لاہور میں بھی کیا گیا تھا۔
اسی طرح اسلام آباد میں سنیوں نے بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا، جو بنیادی طور پر ایرانی پالیسیوں کے خلاف تھا۔ مظاہرین کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تہران حکومت سعودی عرب کے ذاتی معاملات میں ’مداخلت‘ کر رہی ہے۔ مظاہرین کا نعرے لگاتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’خادم الحرمين الشريفين کے لیے جان بھی حاضر ہے۔‘‘