سعودی قطری تنازعے میں نیا موڑ: لائسنس منسوخ، ایک کروڑ جرمانہ
14 جولائی 2020
خلیج کی دو عرب ریاستوں سعودی عرب اور قطر کے مابین تین سال قبل پیدا ہونے والے تنازعے نے نیا موڑ لے لیا ہے۔ سعودی حکومت نے قطری ٹی وی چینل ’بی ان سپورٹس‘ کا لائسنس مستقل منسوخ کر کے اسے ایک کروڑ ریال جرمانہ بھی کر دیا ہے۔
اشتہار
سعودی عرب میں صحت مند کاروباری مقابلے پر نظر رکھنے والی اتھارٹی جی اے سی نے منگل چودہ جولائی کے روز بتایا کہ قطری نشریاتی ادارے beIN Sports کا لائسنس مستقل طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنی 'کاروباری اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں‘ کی وجہ سے متعلقہ سعودی مقتدرہ نے اس قطری ٹیلی وژن کو دس ملین ریال (2.7 ملین امریکی ڈالر) جرمانہ بھی کر دیا ہے۔
سعودی عمومی مقتدرہ برائے مسابقت کی ویب سائٹ کے علاوہ سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن سے نشر کردہ اس فیصلے کی تفصیلات کے مطابق 'بی اِن سپورٹس‘ کی سعودی عرب میں نشریات پر تقریباﹰ تین سال پہلے اس وقت سے پابندی عائد ہے، جب 2017ء کے وسط میں ریاض اور دوحہ کے مابین ایک بڑا تنازعہ پیدا ہو گیا تھا۔
سعودی حکام کے اس فیصلے پر حریف ریاست قطر کی طرف سے کوئی فوری ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ اسی طرح 'بی اِن سپورٹس‘ نے بھی اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
beIN ایک ایسا نشریاتی ادارہ ہے، جو دنیا میں کھیلوں کے کئی عالمی یا بڑے بین الاقوامی مقابلوں اور بہت سے تفریحی پروگراموں کے علاقائی سطح پر نشریاتی حقوق کا مالک بھی ہے۔
سعودی عرب نے جون 2017ء میں خلیجی عرب ریاست قطر پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا کر قطر کے ساتھ اپنے جملہ سفارتی اور تجارتی رابطے منقطع کر دیے تھے۔ اس کے فوری بعد چند دیگر خلیجی یا غیر خلیجی عرب ریاستوں نے بھی سعودی عرب کی اتحادی ہونے کی وجہ سے قطر کے ساتھ اپنے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دونوں ممالک کے مابین یہ تنازعہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
م م / ا ا (روئٹرز)
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔