سعودی، مصری، بحيرنی اور اماراتی اشياء کی قطر ميں فروخت ممنوع
27 مئی 2018
قطری حکومت نے اپنے ملک ميں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرين ميں تيار کردہ اشياء کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کيا ہے۔ ان ملکوں نے پچھلے سال پانچ جون کو قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر ديے تھے۔
اشتہار
دوحہ حکومت کی جانب سے ہفتے چھبيس مئی کی شب جاری کردہ ايک بيان ميں کہا گيا ہے کہ ملک ميں صارفين کی حفاظت يقينی بنانے اور سامان کی غلط انداز ميں ’ٹريفکنگ‘ سے بچنے کے ليے حکومت نے يہ احکامات جاری کر ديے ہيں کہ متعلقہ ممالک کی اشياء کے متبادل سپلائرز تلاش کيے جائيں۔ ان حکم نامے ميں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرين کی اشياء کی فروخت روکنے کا کہا گيا ہے۔ وزارت اقتصاديات کے اس بيان ميں دکانوں اور اسٹورز کو ہدايت دی گئی ہے کہ وہ ان ملکوں کی اشياء کی فروخت فوری طور پر روک ديں۔ وزارتی بيان کے مطابق آئندہ چند ايام ميں معائنہ کاروں کی ٹيم بھی مختلف اسٹورز جا کر يہ ديکھے کی آيا ايسی مصنوعات کی فروخت جاری تو نہيں۔
پچھلے سال پانچ جون سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرين اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی پشت پناہی اور ايران کے ساتھ متنازعہ روابط کا الزام عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے ہيں۔ ان ممالک نے قطر کا نہ صرف سفارتی بلکہ اقتصادی بائيکاٹ بھی کر رکھا ہے۔ دوحہ حکومت کا موقف ہے کہ اس کے خلاف يہ تمام الزامات بے بنياد ہيں اور ان کا مقصد دوحہ ميں حکومت کی تبديلی ہے۔ اس تنازعے سے قبل قطر کا اپنے خليجی پڑوسی ممالک سے درآمدات پر انحصار کرتا تھا تاہم سفارتی و اقتصادی بندشوں کے سبب اس ملک کو اب ضروری اشياء کے ليے ترکی، مراکش اور ايران کے دروازے کھٹکھٹانے پڑے۔
دريں اثناء بحرين کے وزير خارجہ شيخ خالد بن احمد الخليفہ نے اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ انہيں اس سفارتی تنازعے کا فی الحال کوئی حل دکھائی نہيں دے رہا۔ ان کا يہ بيان ايک مقامی اخبر ميں آج بروز اتوار چھپا۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔