سعودی ناکہ بندی بڑا دھچکا تھی، مگر قطر پھر بھی کامیاب رہا
مقبول ملک آنچل ووہرا
8 جنوری 2019
سعودی عرب کی قیادت میں چند خلیجی ریاستوں سمیت عرب ممالک کی طرف سے قطر کی ناکہ بندی ایک بڑا دھچکا تھی مگر دوحہ حکومت نے اس بحران میں بڑی دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ آج ایسا لگتا ہے کہ قطر اس بحران سے کامیابی سے نکل چکا ہے۔
اشتہار
قطر کی معیشت آج پھر سے ترقی کر رہی ہے اور قطری حکمران اپنے ملک کی زمینی، فضائی، بحری اور تجارتی ناکہ بندی کے باوجود اس خلیجی امارت کو دوبارہ اچھی طرح اس کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ آج اگر کوئی قطر میں کسی سے یہ پوچھے کہ اس ناکہ بندی اور بحران کا کیا بنا، تو سوال پوچھنے والا یہ سن کر حیران رہ جاتا ہے، ’’کون سا بحران؟‘‘
سعودی عرب کی قیادت میں قطر کی ناکہ بندی کے بعد اس عرب ریاست میں شروع کے چند ہفتوں میں تو کافی بحرانی حالات پیدا ہو گئے تھے۔ لوگ خوف زدہ تھے، ملکی اقتصادی منڈی تقریباﹰ دہشت زدہ تھی اور سپر مارکیٹوں میں کھانے پینے کی اشیاء تک نظر آنا بند ہو گئی تھیں۔
پابندیوں کا توڑ
اس پس منظر میں قطر کے ایک مقامی پولیس اہلکار کے ساتھ دوحہ کی ایک سپر مارکیٹ میں ہونے والی ایک حالیہ ملاقات کے دوران جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ اب حالات کیسے ہیں، تو اس نے کہا، ’’میرے ساتھ آئیے۔‘‘ یہ قطری شہری اس سپر مارکیٹ میں سبزی خریدنے آیا تھا۔ اس نے مجھے چند قدم آگے تک اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔
دوحہ کی باقی تمام مارکیٹوں کی طرح یہ سپر مارکیٹ بھی طرح طرح کی تازہ سبزیوں، پھلوں اور اشیائے خوراک سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے کہا، ’’یہ جو آپ کو دودھ کی بوتلوں اور پنیر کے پیکٹوں سے بھری ہوئی شیلفیں نظر آ رہی ہیں، یہ سب کچھ ایک ایسے مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ فارم ہاؤس میں تیار کیا گیا ہے، جو دوحہ شہر سے 60 کلومیٹر دور ہے۔‘‘
ناصر علی نامی اس قطری پولیس اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام یہ سب مصنوعات اپنی فضائی حدود سے ہو کر ہمارے ملک تک آنے کی اجازت نہیں دیتے، تو کیا ہوا؟ ہم نے ان کی پیداوار مقامی طور پر شروع کر دی ہے۔‘‘ ناصر علی نے مزید کہا، ’’اب ایک بار پھر دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جو آپ قطر میں خرید نہیں سکتے۔‘‘
تنازعے کی ابتدا
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین نے قطر کے ساتھ ہر طرح کے رابطے منقطع کرتے ہوئےاس ملک کی ناکہ بندی جون 2017ء میں شروع کی تھی اور الزام یہ لگایا تھا کہ دوحہ حکومت مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت اور سرپرستی کر رہی تھی۔ اس سے مراد تب قطر کے ایران کے ساتھ وہ تعلقات بھی تھے، جن میں بتدریج بہتری آتی جا رہی تھی اور وہابی مکتبہ فکر کے مسلمانوں کی اکثریت والے سعودی عرب کے حکمرانوں کی شیعہ اکثریتی آبادی والے ایران کے ساتھ شدید رقابت اور باہمی مخالفت تو عشروں سے چلی ہی آ رہی تھی۔
ان پابندیوں کے ذریعے ریاض حکومت اور اس کے اتحادی قطر کو اس بات پر بھی مجبور کرنا چاہتے تھے کہ وہ اخوان المسلمون نامی اس تنظیم کی حمایت بند کر دے، جسے یہی ممالک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی قطر حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ اسلام پسندوں کی ہر طرح کی تائید و حمایت ختم کر دے اور قطر کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے الجزیرہ کو بھی بند کر دے۔
دوحہ کا انکار
اپنے خلاف یکدم اتنے زیادہ اور شدید الزامات لگائے جانے پر قطر کا جواب یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کی کوئی حمایت نہیں کر رہا اور اپنی ناکہ بندی کرنے والے عرب ممالک کی دیگر شرائط بھی پوری نہیں کرے گا، جو ’سرے سے ہی ناانصافی‘ پر مبنی ہیں۔
جون دو ہزار سترہ سے لے کر اب تک قطر نے اس بارے میں اپنی صلاحیتوں میں بہت اضافہ کر لیا ہے کہ وہ اس اجتماعی ناکہ بندی کے فوری اور بہت تکلیف دہ اثرات کا بھرپور ازالہ بھی کر سکے۔ قطر خود کو ان بحرانی حالات کے باوجود اتنا مضبوط بنا لے گا، یہ قطر کے ہمسایہ اور مخالف ممالک نے سوچا بھی نہیں تھا۔
بھرا ہوا سرکاری خزانہ
اس بحران نے قطری حکمرانوں اور عوام کو یہ احساس بھی دلایا کہ سعودی عرب دراصل بہت طویل عرصے تک دوحہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر اسے یہ بتانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ دوحہ کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ اس نئی قومی خود اعتمادی میں اس خلیجی ریاست کے بھرے ہوئے سرکاری خزانے نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
قطر کے پاس تیل کی دولت بھی بہت ہے اور اس کے پاس قدرتی گیس کے ذخائر بھی دنیا میں اپنی نوعیت کے تیسرے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ اپنے خلاف بائیکاٹ شروع کیے جانے کے بعد دوحہ حکومت نے سینکڑوں ارب ڈالر کے برابر سرکاری وسائل اس بحران کے اقتصادی اثرات کے ازالے کے لیے استعمال کیے۔
قطر کے لیے ایسا کرنا اس وجہ سے بھی ممکن ہو گیا تھا کہ ان پابندیوں کے آغاز سے پہلے بھی کئی بار قطر کو یہ منفرد حیثیت حاصل رہی تھی کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ فی کس سالانہ آمدنی والا ملک تھا۔
بڑے منفی اثرات
قطر کی ناکہ بندی کے بڑے منفی نتائج یہ رہے تھے کہ وہاں املاک کی قیمتوں میں یکدم بہت کمی ہو گئی تھی۔ قومی فضائی کمپنی قطر ایئرویز کو شدید خسارہ ہونے لگا تھا اور اس ملک کا رخ کرنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد بھی بہت کم رہ گئی تھی۔ لیکن آج ان پابندیوں کے قریب ڈیڑھ برس بعد ان جملہ منفی حقائق کا تقریباﹰ کہیں کوئی نشان نہیں ملتا۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/ C. Ozdel
8 تصاویر1 | 8
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے مطابق قطر کی معیشت دوبارہ ترقی کر رہی ہے اور ابھی دسمبر 2018ء میں ہی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی نے قطر کے لیے اپنی ریٹنگ بدل کے ’منفی‘ سے دوبارہ ’مستحکم‘ کر دی تھی۔
قطر میں مقامی شہریوں کی تعداد صرف تین لاکھ
قطر کا شمار خلیج کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں مقامی آبادی میں بیرون ملک سے آنے والے مہمان کارکنوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ کئی لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہو گی کہ قطر میں رہنے والے ہر نو افراد میں سے صرف ایک اس ریاست کا شہری بھی ہے۔ اوسطاﹰ ہر نو میں سے باقی آٹھ وہاں رہائش پذیر غیر ملکی ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قطر کی مجموعی طور پر صرف قریب 2.7 ملین (ستائیس لاکھ) کی آبادی میں مقامی شہریت کے حامل باشندوں کی تعداد محض تین لاکھ ہے۔
قطر میں تعینات امریکا کے فوجی دستوں کی تعداد بھی 10 ہزار کے قریب ہے۔ دوحہ حکومت خطے میں واشنگٹن کی بہت اہم اتحادی ہے اور امریکا کا خلیج کے علاقے میں سب سے بڑا فوجی اڈہ بھی قطر ہی میں ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
تنازعہ شدید نہیں ہوا لیکن فاصلے بڑھ گئے
قطر کا سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تنازعہ گزشتہ قریب ڈیڑھ برس سے مزید شدید تو نہیں ہوا لیکن اس دوران فریقین کے مابین فاصلے مزید بڑھ چکے ہیں۔ قطر نے اگر اس تنازعے میں ریاض حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور پھر اپنے اس فیصلے کو اچھا فیصلہ بھی ثابت کیا، تو اس کا سہرا قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے سر جاتا ہے۔
اوپیک سے اخراج کا فیصلہ
گزشتہ برس قطر نے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک سے اپنے اخراج کا فیصلہ بھی کر لیا تھا۔ سرکاری طور پر دوحہ نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ قطر ویسے بھی اوپیک کا سب سے چھوٹا رکن ملک تھا اور اب اپنے ہاں قدرتی گیس کی پیداوار اور برآمد پر زیادہ توجہ دینا چاہتا ہے۔
اس کے برعکس کئی تجزیہ نگاروں کے بقول دوحہ نے اوپیک میں اپنی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ اس وجہ سے بھی کیا کہ قطر کا یہ اقدام بھی ایک احتجاج تھا، اوپیک پر تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر سعودی عرب کے غلبے کے خلاف۔
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟