سعودی وزیر خارجہ کا دورہ: استحکام کے حوالے سے بیان زیر بحث
عبدالستار، اسلام آباد
27 جولائی 2021
سعودی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر ہیں، جہاں علاقائی استحکام کے حوالے سے ان کا بیان ناقدین کی مرکز نگاہ ہے۔ اس بیان کے بعد یہ بحث ہو رہی ہے کہ آیا ریاض یمن میں پھر عسکری مدد کی درخواست کرنے کا خواہاں ہے۔
اشتہار
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور انہوں نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ سلامتی اور استحکام کے بغیر معاشی خوشحالی نہیں آ سکتی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خطے میں استحکام کے حوالے سے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
روزنامہ ڈان کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے علاقائی مسائل پر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے، چاہے وہ کشمیر کا ہو فلسطین کا ہو یا یمن کا ہو۔ شہزادہ فیصل کا کہنا تھا کہ انہوں نے تعلقات کے معاشی پہلو پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ اس دورے کا مقاصد معاشی امور سے بالا ہیں۔
یمن کی خانہ جنگی میں کردار
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اب بھی پاکستان سے یمن میں کوئی عسکری کردار ادا کرنے کی توقع کر رہا ہے اور اسی امید پر شاید سعودی وزیر پاکستان آئے ہیں۔
اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے سعودی عرب کے لیے یمن کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔
میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یمن (جغرافیائی اعتبار سے ) پاکستان سے بہت دور ہے۔ پاکستان اس حوالے سے کیا کردار ادا کر سکتا ہے اگر کوئی کردار بنتا ہے، تو وہ صرف عسکری حوالے سے بنتا ہے۔ سعودی نقطہ نظر سے یمن کا استحکام اس بات سے وابستہ ہے کہ حوثی باغی ہتھیار پھینکیں اور حکومت کی رٹ کو تسلیم کریں جس کو بین الاقوامی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں جبکہ ایران کا نقطہ نظر اس حوالے سے بالکل مختلف ہے۔‘‘
امان میمن کے بقول اس حوالے سے ریاض چاہتا ہے کہ پاکستان کوئی عسکری کردار ادا کرنے کی حامی بھر دے، ''سعودی عرب نے اس طرح کی درخواست 2014 میں بھی کی تھی لیکن اس وقت نواز شریف کی حکومت نے اس کو مسترد کردیا تھا۔ اس وقت کیوں کہ پاکستان کے معاشی حالات نسبتاً بہتر تھے لیکن اب ریاض کو معلوم ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات بہت برے ہیں۔ ورلڈ بینک ان کو کوئی امداد نہیں دے رہا۔ آئی ایم ایف پاکستان کے حوالے سے کوئی نرمی نہیں کر رہا۔ امریکا اور مغرب سے بھی تعلقات اتنے اچھے نہیں کہ وہ معاشی طور پر پاکستان کی مدد کر سکیں تو سعودی عرب معاشی مجبوری کو پیش نظر رکھ کر پاکستان کو ایک بار پھر یمن میں کودنے کی دعوت دینا چاہتا ہے۔‘‘
اشتہار
افغانستان میں جنگ بندی
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سعودی شہزادے کے دورے کے مقاصد میں صرف مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ دوسرے علاقے بھی شامل ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ یہ بات پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات انتہائی قریب ہیں اور کئی معاملات میں ریاض کا مطالبہ واشنگٹن کی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔
خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکا کی خواہش ہے کہ افغانستان میں جنگ بندی ہو جبکہ افغان طالبان اس سے انکاری ہیں۔ سعودی عرب کو پتہ ہے کہ پاکستان کا اثر رسوخ افغان طالبان پر ہے تو ممکنہ طور پر سعودی عرب امریکی خواہش لے کر آیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ایران روس اور چین میں قربت بڑھ رہی ہے کیونکہ سعودی عرب امریکی کیمپ میں ہے اس بات کا قوی امکان ہے کہ سعودی شہزادہ پاکستان کو خبردار کرنے آئے ہوں کہ یہ قربت مغربی ممالک اور سعودی عرب سے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔‘‘
اعتدال پسند مذہبی تشریح
ڈاکٹر سرفراز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب مذہب کی سخت گیر تشریح کے اب خلاف ہوتا جا رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جو ممالک اس سے قریب ہیں وہاں بھی اب اعتدال پسندی اختیار کی جائے۔
انہوں نے کہا، ''کیوں کہ پاکستان میں بھی مولویوں کی اکثریت مذہب کی ایک ایسی تصور پر یقین رکھتی ہے جو سخت گیریت کی طرف لے جاتا ہے لیکن سعودی عرب اب اس تشریح کے خلاف ہو چکا ہے، اس لیے ممکنہ طور پر سعودی عرب پاکستان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ترک ماڈل کی بجائے سعودی مذہبی ماڈل اپنائے۔ اس کے علاوہ ریاض یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو اسلام کی سخت گیریت پر مبنی تشریح سے روکے اور ماضی میں وہاں جو غیر انسانی سزا دی جاتی تھی یا مجسمہ توڑے جاتے تھے ایسا کوئی عمل نہ دہرایا جائے، کیونکہ اس طرح نہ صرف اس خطے کے انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی بلکہ مڈل ایسٹ میں بھی اسلامی شدت پسندوں کی تحریک کو جلا ملے گی۔‘‘
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
پاکستان غیر جانبدار رہے گا
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان غیر جانبدار رہے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یمن کے مسئلے پر پاکستان ماضی میں بھی یہ بات واضح کر چکا ہے کہ پاکستان عسکری حوالے سے اس میں ملوث نہیں ہوگا اور 2014 کا جو فیصلہ ہے وہ برقرار رہے گا۔ یہ صرف یمن کا ہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ قطر کے مسئلے پر بھی پاکستان نے سعودی عرب کی وجہ سے اپنے تعلقات دوہا سے خراب نہیں کیے تھے۔‘‘
ڈاکٹر ظفر نواز کے بقول ریاض ممکنہ طور پر پاکستان سے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایران سے بات چیت کرکے حوثی باغیوں کو مذاکرات پر راضی کرے۔ تاہم پاکستان کسی طور بھی طور پر بھی عسکری طور پر ملوث نہیں ہوگا۔ ہاں سعودی عرب کی داخلی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کردار ادا کرے گا۔‘‘
برصغیر میں القاعدہ کی شاخ
ڈاکٹر ظفر نواز کا کہنا ہے کہ یمن کے علاوہ بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کئی ایسے معاملات ہیں جس پر اتفاق ہو سکتا ہے، ''حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ آئی ہے، جس میں برصغیر میں القاعدہ کی شاخ کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، یقیناً اس پر سعودی عرب پریشان ہے کیونکہ یہاں سے نکل کر القاعدہ عرب ممالک میں ہی جائے گی۔ تو القاعدہ کی موجودگی دونوں ممالک کے لیے تشویشناک ہے دونوں ممالک اس حوالے سے کسی مشترکہ لائحہ عمل میں پہنچ سکتے ہیں اور اس دورے کا ایک نقطہ وہ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں 47 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب نے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
1۔ سعودی عرب
سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/ H. Jamali
2۔ بھارت
عالمی سطح پر فروخت کردہ اسلحے کا 9.5 فیصد بھارت نے خریدا اور یوں اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق بھارت اس دوران اپنا 58 فیصد اسلحہ روس، 15 فیصد اسرائیل اور 12 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa
3۔ مصر
مصر حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ اسلحہ خریدنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوا۔ مصر کی جانب سے سن 2014 اور 2018ء کے درمیان خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔ اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں یہ شرح محض 1.8 فیصد تھی۔ مصر نے اپنا 37 فیصد اسلحہ فرانس سے خریدا۔
تصویر: Reuters/Amir Cohen
4۔ آسٹریلیا
مذکورہ عرصے میں اس مرتبہ فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر چوتھا رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 4.6 فیصد رہی۔ آسٹریلیا نے 60 فیصد اسلحہ امریکا سے درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 4.4 فیصد بنتے ہیں۔ اس عرصے میں الجزائر نے ان ہتھیاروں کی اکثریت روس سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ سن 2014 اور 2018ء کے درمیان چین اسلحہ برآمد کرنے والا پانچواں بڑا ملک لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک بھی رہا۔ کُل عالمی تجارت میں سے 4.2 فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
7۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق مذکورہ عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.7 فیصد اسلحہ خریدا جس میں سے 64 فیصد امریکی اسلحہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور بھاری اسلحے کی خریداری میں عراق کا حصہ 3.7 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ جنوبی کوریا
سپری کی تازہ فہرست میں جنوبی کوریا سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک رہا۔ اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 3.1 فیصد اسلحہ جنوبی کوریا نے خریدا۔ پانچ برسوں کے دوران 47 فیصد امریکی اور 39 فیصد جرمن اسلحہ خریدا گیا۔
تصویر: Reuters/U.S. Department of Defense/Missile Defense Agency
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے 2.9 فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
پاکستان گزشتہ درجہ بندی میں عالمی سطح پر فروخت کردہ 3.2 فیصد اسلحہ خرید کر نویں نمبر پر تھا۔ تاہم تازہ درجہ بندی میں پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 2.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے اپنے لیے 70 فیصد اسلحہ چین، 8.9 فیصد امریکا اور 6 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔