1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی ولی عہد اب اسرائیل کو کیوں تسلیم کرنا چاہتے ہیں؟

مقبول ملک ویزلی ڈوکری
4 اپریل 2018

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ حالیہ بیان کہ اسرائیل کو اس کی بقا کا حق حاصل ہے، اس امر کا واضح اشارہ ہے کہ سعودی عرب اب اسرائیل کے ریاستی وجود کو تسلیم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا آخر اب ہی کیوں؟

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، دائیں، اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمانتصویر: Reuters/A. Levy & A. Cohen

سعودی عرب کے شاہ سلمان کے بیٹے اور ملکی ولی عہد محمد بن سلمان نے پیر دو اپریل کو امریکی جریدے ’دا اٹلانٹک‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں پہلی بار کھل کر کہا تھا کہ ’اسرائیل کو اس کی بقا کا حق حاصل ہے‘۔ ساتھ ہی سعودی عرب کی اس دوسری طاقت ور ترین شخصیت نے اس امریکی جریدے کو یہ بھی بتایا تھا کہ ان کا یہودیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ’’پیغمبرِ اسلام نے تو ایک یہودی خاتون سے شادی بھی کی تھی۔‘‘

جنگ زدہ یمن کے لیے دو ارب ڈالر کی مالی امداد

اسرائیل کو ’اپنی سرزمین کا حق‘ حاصل ہے، سعودی ولی عہد

سعودی ولی عہد کا یہ بیان اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خلیج کی یہ بااثر ترین عرب ریاست اب اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتی ہے۔ ساتھ ہی محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا تھا، ’’اسرائیل کے رقبے کو دیکھا جائے تو تقابلی بنیادوں پر اس کی معیشت ایک بڑی معیشت ہے اور اسرائیل اور سعودی عرب کے بہت سے مفادات مشترک ہیں۔ اگر امن قائم ہو جائے تو اسرائیل، خلیجی تعاون کی کونسل کے رکن ممالک اور مصر اور اردن جیسی عرب ریاستوں کے مابین بہت سی قدریں مشترک ہوں گی۔‘‘

مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کی جنگ: سعودی عرب بمقابلہ ایران

جو بات سعودی ولی عہد نے کھل کر نہیں کی، وہ یہ تھی کہ سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ہی ایران کو ’محدود‘ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہابی مسلم سوچ کی اکثریت والی آبادی کی حامل ریاست سعودی عرب شیعہ اکثریتی ایران کو خطے میں اثر و رسوخ کی جدوجہد میں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ شام، یمن اور کئی دیگر ممالک میں پائے جانے والے تنازعات میں بھی ایران مسلسل اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

نائن الیون: سعودی حکومت کی مقدمہ ختم کرنے کی اپیل مسترد

حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر سات بیلاسٹک میزائل داغے

اس بارے میں مصری دارالحکومت میں قاہرہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر حسن نافعہ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’سعودی عرب کے اسرائیل سے متعلق موقف میں تبدیلی کے پیچھے کلیدی محرک ایران ہے۔ سعودی عرب ایران کے ساتھ اپنی رقابت کو اس طرح دیکھتا ہے کہ معاملہ اسلامی دنیا کی قیادت کا ہے اور اس قیادت پر ایران کی سربراہی میں شیعوں کا غلبہ ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘

سعودی عرب میں تبدیلی کی ہوا اور خواتین

01:11

This browser does not support the video element.

پروفیسر حسن نافعہ کے بقول اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ہی کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے اور سعودی رہنما تو ’’ممکنہ طور پر اس پیش رفت کا بھی خیرمقدم کر سکتے ہیں کہ اسرائیل ایران کی ان جوہری تنصیبات پر یکطرفہ حملے کر دے، جو ایٹمی مادوں کی تیاری کے لیے استعمال ہو سکتی ہوں۔‘‘

یمنی خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن بنایا جائے، میٹس

سعودی عرب: انتہاپسند نظریات کے خاتمے کے لیے نصابی تبدیلیاں

ایران شامی جنگ میں صدر بشارالاسد کا اتحادی ہےتصویر: Colourbox

دوسری طرف برطانوی دارالحکومت لندن کی ریجنٹس یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر یوسی میکلبرگ نے ڈی بلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کا ریاستی وجود تسلیم کیا جانا اسرائیل کے لیے انتہائی اہم ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے ماحول میں جب مشرق وسطیٰ میں کئی ممالک اسرائیل کے اس کی بقا کے حق کے سلسلے میں جارحانہ سوچ رکھتے ہیں۔

پروفیسر یوسی میکلبرگ کے مطابق اسرائیل تو سعودی ولی عہد کے اس بیان سے خوش ہوا ہو گا لیکن اسی بیان پر فلسطینی خوش نہیں ہوئے ہوں گے کیونکہ فلسطینیوں کی شکایت یہ ہو گی کہ اسرائیل قیام امن کے عمل میں خود فلسطینیوں کو تو کوئی رعایات نہیں دے رہا لیکن عرب دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے قریب تر آتے جا رہے ہیں۔

پرنس محمد بن سلمان کے اسرائیل سے متعلق اسی بیان پر لندن میں تعینات ایک اسرائیلی سفارت کار ایلاد راسٹن نے کہا کہ سعودی ولی عہد کا یہ بیان دراصل ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب ’خطے میں اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت‘ کرتا ہے۔ دوسری طرف غزہ میں رہنے والے فلسطینی مصنف یاسر الزعاترہ نے سعودی ولی عہد کے بیان پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’صیہونیوں کو فلسطین کے کسی بھی حصے پر کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ غاصب ہیں، جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں سے آ کر فلسطینی سرزمین پر قبضہ کیا۔ ان حالات میں اسرائیل کے حق کی بات کرنا قطعی لایعنی اور ایک بیہودہ کوشش ہے۔‘‘

سعودی عرب ایٹم بم بنانے سے گریز نہیں کرے گا، سعودی ولی عہد

حوثی باغی اور سعودی حکام خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں، ذرائع

اسرائیل کے بارے میں سعودی قیادت کا نیا موقف اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ عرب اسرائیلی تنازعے کے حوالے سے اور اسرائیل کے اس کی بقا کے حق کو چیلنج کرنے کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ میں صورت حال آئندہ مہینوں اور برسوں میں ویسی نہیں رہے گی، جیسی گزشتہ کئی عشروں سے دیکھنے میں آتی رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں