سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے جمعرات کے روز سے متحدہ عرب امارات سے اپنے عرب ممالک کے دورے کا آغاز کر دیا ہے۔ جمال خاشقجی قتل کے بعد یہ ان کا پہلا غیرملکی دورہ ہے۔
اشتہار
گزشتہ ماہ کے آغاز پر ترکی شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جلاوطن سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی ولی عہد پہلے سرکاری غیرملکی دورے پر ہیں۔ اس قتل کے بعد سعودی عرب پر شدید عالمی دباؤ ہے اور یہ دورہ اسی صورت حال میں عرب ممالک کی حمایت کے حصول کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سعودی خبر رساں ادارے ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’شہزادہ سلمان اپنے والد کی درخواست پر متعدد برادر عرب ممالک کا دوری شروع کر رہے ہیں۔‘‘
اس سعودی بیان میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ محمد بن سلمان کن کن ممالک کا دورہ کریں گے اور نہ ہی ان ممالک کی تعداد ظاہر کی گئی ہے۔
متحدہ عرب امارات پہنچنے پر ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید نے محمد بن سلمان کا استقبال کیا۔ اماراتی نیوز ایجنسی ڈبلیو اے ایم نے بغیر تفصیلات ظاہر کیے بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں خطے کے مسائل اور مشرقِ وسطیٰ کو لاحق خطرات کے موضوعات پر بات چیت کی گئی۔
تیونس میں ایک صدارتی ذریعے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ محمد بن سلمان منگل کے روز تیونس پہنچ رہے ہیں۔
اگلے ہفتے ارجنٹائن میں ترقی یافتہ اور تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں کے گروپ 20 اجلاس میں شرکت سے قبل ولی عہد محمد بن سلمان کے اس علاقائی دورے کو نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جلاوطن صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے سعودی عرب کو بے پناہ بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے اور محمد بن سلمان کی کوشش ہے کہ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے خطے کے ممالک کا اعتماد حاصل کیا جائے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
دوسری جانب انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ جی ٹوئنٹی اجلاس کے حاشیے پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات ہو سکتی ہے۔ خاشقجی قتل معاملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نہایت کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اگر یہ دونوں رہنما ملتے ہیں، تو خاشقجی واقعے کے بعد ترک اور سعودی عرب کی اعلیٰ ترین قیادت کے درمیان یہ پہلی بالمشافہ ملاقات ہو گی۔ یہ بات اہم ہے کہ چند روز قبل امریکی میڈیا میں سامنے آنے والی رپورٹوں میں سی آئی اے کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ خاشقجی قتل میں شہزادہ محمد بن سلمان ملوث ہو سکتے ہیں۔