ایران کے وزیر خارجہ ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ چین کے دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران جواد ظریف سن 2015 کے جوہری معاہدے کے تحفظ کو ممکن بنانے کی کوشش کریں گے۔
اشتہار
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ہمراہ چین جانے والے وفد میں ایرانی پارلیمان کے اسپیکرعلی لاریجانی اور دیگر اراکین کے ساتھ ساتھ خزانہ اور پٹرولیم کے وزراء اور مرکزی بینک کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ اس دورے پر ایران امریکی پابندیوں کے تناظر میں درپیش مالی چیلنجز کو بھی بیجنگ حکومت کے ساتھ زیربحث لانا چاہتا ہے۔
اس دورے کے آغاز پر چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں محمد جواد ظریف کی تقریر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ٹیلی وژن پر ایرانی عوام کے حقوق کے دفاع میں وزیر خارجہ ظریف کی جاندار تقریر کو دیکھا اور انہیں یقین ہے کہ ہزاروں چینی باشندوں نے بھی یہ تقریر دیکھی اور سُنی ہو گی اور اس باعث وہ اب چین میں خاصے مقبول ہو گئے ہیں۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے اختتامی دن یعنی سترہ فروری کو ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی نائب صدر مائیک پینس کی تقریر کا جواب دیا تھا۔
چینی وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب پر یہ بھی واضح کیا کہ اُن کا یہ دورہ دو طرفہ اسٹریجیک اعتماد کو بڑھانے میں اہم ثابت ہو گا۔ ظریف نے وانگ یی کے بیان کے جواب میں کہا کہ چین ہمیشہ سے ایران کے لیے ایک انتہائی اہم ملک رہا ہے اور جامع باہمی تعلقات اور پارٹنرشپ بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے حالیوں رابطوں میں پیدا ہونے والی اسٹریٹیجک پیش رفت کو بھی نہایت اہم قرار دیا۔
اس دورے کے آغاز سے قبل ایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے چینی نیوز ایجنسی سنہوا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران اور چین کے درمیان گرم جوش تعلقات پائے جاتے ہیں۔ لاریجانی کے مطابق دونوں ممالک کے پرجوش تعلقات کثیر الجہتی ہیں اور بین الاقوامی منظر پر بھی دونوں ایک دوسرے کی پالیسیوں کے حامی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چین عالمی سیاسی منظر کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایران کے ساتھ گہرے اسٹریٹیجک روابط کو استوار کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی چین آمد سعودی ولی عہد کے چینی دورے سے قبل عمل میں آئی ہے۔ یہ امر بیجنگ حکومت کو ان ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں توازن قائم کرنے میں مشکلات کا باعث ہو سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں بیجنگ حکومت کا مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑا کردار نہیں دیکھنے میں آیا۔
سعودی عرب کے شاہ سلمان سن 2017 میں چین کا دورہ کر چکے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان رواں ہفتے کے آخر میں چین پہنچیں گے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔