بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر محمد بن سلمان آئندہ ماہ بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ انڈونیشیا میں جی-20 کانفرنس میں شرکت سے قبل ان کا یہ دورہ کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
اشتہار
بھارتی خبر رساں ایجنسیوں اور میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد اور مملکت کے وزیر اعظم محمد بن سلمان بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے لیے نومبر کے وسط میں نئی دہلی کا دورہ کریں گے۔ ایک سعودی وزیر نے گزشتہ ہفتے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان انڈونیشیا کے سیاحتی شہر بالی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے جب ریاض سے روانہ ہوں گے، تو ان کی پہلی منزل دہلی ہو گی اور بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کرنے کے بعد وہ بالی کے لیے روانہ ہوں گے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم مودی نے ایک مکتوب کے ذریعے انہیں دہلی آنے کی دعوت دی تھی، جسے انہوں نے قبول کر لیا ہے۔ وہ 14 نومبر کو دہلی پہنچیں گے اور دوسرے ہی روز بالی کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس ملاقات کا اہم مقصد توانائی کی فراہمی کے تحفظ پر بات چیت کرنا ہے۔
روس یوکرین جنگ کے بعد توانائی کے تحفظ سے متعلق جو چیلنجز پیدا ہوئے ہیں، اس پس منظر میں مودی اور سعودی ولی عہد کی ملاقات کافی اہم مانی جا رہی ہے۔
در اصل روس سمیت اوپیک پلس ممالک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے توانائی کی صورتحال کافی پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ تیل کی پیداوار میں کمی کے بعد ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کو ''نتائج'' سے متعلق دھمکی بھی دی تھی۔
سعودی عرب کے وزیر توانائی عبدالعزیز بن سلمان نے گزشتہ ہفتے ہی بھارت کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے بھارت کے وزیر تجارت پیوش گوئل اور وزیر صنعت و توانائی سمیت کئی سینیئر وزراء سے بات چیت کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق امریکی دھمکیوں کے بعد ہی توانائی کے بحران پر سعودی وزیر نے چینی حکام سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت کی اور چونکہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کریں گے، اس لیے توانائی کے حوالے سے ایک مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد ماسکو پر مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے تیل اور گیس کی بین الاقوامی سیاست بھی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اور تیل استعمال کرنے والے بڑے ممالک کے درمیان ایک طرح سے رسہ کشی جاری ہے۔
انگریزی اخبار 'دی ہندو' کے مطابق سعودی ولی عہد بھارتی دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان جاری دیگر دو طرفہ منصوبوں کا بھی جائزہ لیں گے۔ محمد بن سلمان نے سن 2019 میں بھارت میں تقریبا 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، لیکن اطلاعات کے مطابق اس منصوبے پر اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو پائی ہے۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔