1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقسعودی عرب

صحافی خاشقجی کا قتل ایک 'بڑی غلطی'، محمد بن سلمان

19 نومبر 2025

سعودی عرب کے ولی عہد نے خاشقجی کے قتل کو ایک 'بڑی غلطی' قرار دیا، تاہم ٹرمپ نے اس معاملے میں سوال پوچھنے پر ایک رپورٹر پر تنقید کی اور الزام لگایا کہ وہ شہزادے کو 'شرمسار' کر رہی ہیں۔

 محمد بن سلمان ٹرمپ کے ساتھ
ٹرمپ نے اپنے مہمان کے بارے میں کہا کہ مجھے ان کے کام پر بہت فخر ہے اور انہوں نے، جو بھی کیا وہ انسانی حقوق کے لحاظ سے ناقابل یقین ہےتصویر: Kevin Lamarque/REUTERS

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو ایم بی ایس کے نام سے معروف ہیں اور مملکت کے متنازعہ عملاﹰحکمران ہیں،  کا وائٹ ہاؤس میں خیر مقدم کیا۔

ٹرمپ نے وائٹ ​​ہاؤس کے جنوبی لان میں توپ کی سلامی اور فضا میں فوجی جیٹ طیاروں کی پرواز کے ساتھ سعودی شہزادے کا شاندار روایتی استقبال کیا۔

 اوول آفس میں موجودگی کے دوران ولی عہد نے اعلان کیا کہ وہ امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی مجوزہ سرمایہ کاری کو بڑھا کر ایک ٹریلین ڈالر تک کر دیں گے۔

سن 2018 میں سعودی ایجنٹوں کے ہاتھوں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے بعد محمد بن سلمان کا یہ پہلا دورہ واشنگٹن ہے۔

واضح رہے کہ امریکی انٹیلیجنس سروسز نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امکان ہے اس بات کا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں جو ایجنٹ ملوث تھے وہ ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر کام کر رہے تھے۔

صحافی خاشقجی کا قتل ایک 'بڑی غلطی‘

اوول آفس میں ٹرمپ نے اپنے مہمان کے بارے میں کہا، ''مجھے ان کے کام پر بہت فخر ہے۔۔۔۔۔ انہوں نے، جو کیا وہ انسانی حقوق کے لحاظ سے ناقابل یقین ہے اور باقی سب کچھ بھی حیرت انگیز ہے۔‘‘

جب محمد بن سلمان اور ٹرمپ مختصر سوال و جواب کے دوران سرمایہ کاری کے بارے میں بات کر رہے تھے، تبھی موڈ خاص طور پر اس وقت ناخوشگوار ہو گیا جب ایک امریکی رپورٹر نے شہزادے سے 2018 میں ترکی میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں سوال پوچھ لیا۔

اس پر ٹرمپ نے خاشقجی کو "انتہائی متنازعہ" شخصیت قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ "بہت سے لوگ انہیں پسند نہیں کرتے تھے" پھر کہا کہ "وہ (شہزادہ) اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔"

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا دفاعی سودا اسرائیل کو پریشان کر سکتا ہےتصویر: Evan Vucci/AP Photo/picture alliance

صحافی جمال خاشقجی کا قتل جس ڈھٹائی سے کیا گیا اس سے دنیا بھر میں صدمے کی لہریں دوڑ گئی تھیں۔ اس بات کے چرچے تھے کہ کس طرح ایک طاقتور آمرانہ حکومت نے اپنے ایک ناقد کو ملک سے باہر ایک سفارتی مقام پر اس لیے آنے کے لیے آمادہ کیا تاکہ گھر واپس جانے سے پہلے اس کا قتل کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے خود اس قتل کے بارے میں کہا، "یہ تکلیف دہ ہے اور یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے، اور ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔"

البتہ ٹرمپ نے سوال پوچھنے پر رپورٹر پر تنقید کی اور ان پر شہزادے کو "شرمسار" کرنے کا الزام لگایا۔

ابراہیمی معاہدے میں سعودی کردار؟

صدر ٹرمپ نے اپنے نام نہاد ابراہیمی معاہدوں کے ایک حصے کے طور پر سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں بھی گہری دلچسپی لی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں استحکام کے ایک راستے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

منگل کے روز، ولی عہد نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو "جلد سے جلد" معمول پر لانے کے لیے کام کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔

بحرین، مراکش اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سب نے اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں لیکن سعودی عرب، جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور تعلقات معمول پر آنے سے پہلے فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہے، نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ہے۔

ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ ان کا خیال ہے کہ شہزادہ اس میں شامل ہونے کے لیے مائل ہیں۔ البتہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی اس خواہش کا اعادہ کیا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اور اسرائیلی "پرامن طور پر ایک ساتھ رہیں" لیکن انہوں نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ دو ریاستی حل کا راستہ محفوظ ہونا چاہیے۔

سعودی عرب کے لیے ایف 35 طیاروں کی پیشکش

شہزادہ بن سلمان کے ساتھ ٹرمپ کی ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس نے باضابطہ طور پر ایک "بڑے دفاعی فروخت پیکج" کی تصدیق کی جس میں جنگی طیارے ایف 35 کی فروخت بھی شامل ہے۔ البتہ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ دفاعی سودا اسرائیل کو پریشان کر سکتا ہے۔

ٹرمپ نے اس سے قبل سعودی عرب اور اسرائیل کے بارے میں کہا کہ "جہاں تک میرا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ دونوں اس سطح پر ہیں، جہاں انہیں سب سے اوپر جانا چاہیے۔ اسرائیل باخبر ہے اور وہ بہت خوش ہوں گے۔"

اس دفاعی سودے پر ٹرمپ انتظامیہ کے اندر بھی ملے جلے جذبات ہیں۔ کچھ لوگوں کی دلیل ہے کہ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اتحادی سعودی عرب کے پاس امریکی فوجی ہارڈ ویئر ہے اور اس سے خطے میں امریکی فوجیوں کے ساتھ باہمی تعاون میں مدد ملے گی۔

تاہم، دوسروں کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ اس سے امریکہ کا جدید ترین فوجی ہارڈویئر بالآخر چینیوں کے ہاتھ میں جا سکتا ہے، جو امریکہ کے سب سے بڑے عالمی حریفوں میں سے ایک ہے۔

ادارت: جاوید اختر

خاشقجی کے بارے میں سوال پر شہزادہ سلمان کی خاموشی

00:55

This browser does not support the video element.

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں