سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دونوں دیرینہ حریف پڑوسی ملکوں کے درمیان بغداد میں خفیہ مذاکرات کے بعد ایران کے ساتھ 'اچھے تعلقات‘ کی خواہش ظاہر کی ہے۔
اشتہار
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دیرینہ حریف ملک ایران کے تئیں منگل کے روز مصالحانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے اس ہمسایہ ملک کے ساتھ 'اچھے‘ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔
دونوں ممالک علاقائی برتری حاصل کرنے کے لیے ایک عرصے سے بالواسطہ طور پر باہم متحارب ہیں۔ سن 2016 میں ایک معروف شیعہ عالم دین کو سعودی حکومت کی طرف سے سزائے موت دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین کے سعودی سفارتی مشنوں پر ہونے والے حملے کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کرلیے تھے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے منگل کو دیر رات نشر ایک ٹیلی ویزن انٹرویو میں کہا”ایران ایک پڑوسی ملک ہے اور ہم سب ایران کے ساتھ ایک اچھے اور خصوصی تعلقات کے خواہش مند ہیں۔"
سعودی ولی عہد کا مزید کہنا تھا”ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے حالات مزید پریشان کن ہوں۔ اس کے برخلاف ہم چاہتے ہیں ایران ترقی کرے اور خطے اور دنیا کو خوشحالی کی جانب لے جانے میں تعاون کرے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ریاض، تہران کے ”منفی رویے" کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنے علاقائی اور عالمی شرکائے کار کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی تصاویر
عراقی دارالحکومت بغداد میں مشتعل شیعہ مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے۔ یہ افراد مرکزی دروازہ توڑ کر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور استقبالیہ کے سامنے امریکی پرچم نذر آتش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل سفارتی عملے کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔ بغداد کے محفوظ ترین علاقے میں جاری اس احتجاج میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
یہ مظاہرے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجوؤں پر امریکی فضائی حملے کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کو امریکی فضائیہ نے ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم پچیس جنگجو مارے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارت خانے کے حفاظتی دستوں کی جانب سے مظاہرین کو واپس دھکیلنے اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
مظاہرین امریکی سفارت خانے کے بالکل سامنے امریکا مردہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے سفارت خانے کی حدود میں داخل ہوئے۔ مظاہرین نے پانی کی بوتلیں بھی پھینکیں اور سفارت خانے کے بیرونی سکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
آج بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تدفین کے بعد کیا گیا۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
جنگجوؤں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ جاری رکھا اور آخر کار سفارت خانے کا بیرونی دروازہ توڑنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ سازی کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ ٹرمپ کے بقول ایران نے ایک امریکی ٹھیکیدار کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا، جس کے جواب میں فضائی کارروائی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی صدر کے مطابق آج کے اس واقعے پر سخت امریکی رد عمل سامنے آئے گا۔ ان کے مطابق اب ایران بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار بھی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عراقی حکام سے سفارت خانے کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی سفارت خانے کے باہر ایک دستی بم پھٹنے سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر نے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو قابو میں لائے۔ ماہرین کے رائے میں طاقت کے استعمال سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مزید تقویت پکڑ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
9 تصاویر1 | 9
لہجے میں تبدیلی
ایران کے حوالے سے شہزادہ محمد بن سلمان کے لہجے میں یہ تبدیلی ان کے سابقہ انٹرویوز سے یکسر مختلف ہے، جس میں وہ تہران کو علاقائی عدم استحکام کو ہوا دینے کے لیے مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔
اشتہار
سعودی ولی عہد نے تہران کے ساتھ کسی بات چیت کا تاہم ذکر نہیں کیا۔
عراقی وزیر اعظم مصطفی الخادمی کے تعاون سے ریاض اور تہران کے درمیان بغداد میں ہونے والی بات چیت کا انکشاف فائنانشیل ٹائمز کی ایک رپورٹ سے ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ دونوں کے درمیان 9 اپریل کو پہلی میٹنگ ہوئی تھی۔
عراقی حکومت کے ایک عہدیدار نے بھی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان مذاکرات کی تصدیق کی تھی جبکہ ایک مغربی سفارت کا کہنا تھا کہ انہیں ”تعلقات کو بہتر بنانے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی" کے بارے میں ”پیشگی اطلاع“دی گئی تھی۔
ریاض نے سرکاری طورپر اس طرح کی کسی بات چیت کی تردید کی ہے تاہم ایران نے اس پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور ایک مختصر بیان میں کہا کہ تہران سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کا ”ہمیشہ خیر مقدم" کرتا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب خطے میں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
10 تصاویر1 | 10
یمنی بھی تو عرب ہیں
سعودی عرب اور ایران، شام سے لے کر یمن تک متعدد علاقائی تصادم میں ایک دوسرے کے حریف گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
ایران، یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کر رہا ہے جو سن 2015 سے سعودی عرب کی قیادت والی اتحادی فوج کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے اہداف بشمول تیل کی تنصیبات پر ڈرون اور میزائل حملے بھی تیز کر دیے ہیں۔
سعودی ولی عہد نے اپنے انٹرویو میں حوثی باغیوں سے جنگ بندی اور مذاکرات کی اپیل کی۔
شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا''اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثیوں کے ایرانی نظام سے قریبی تعلقات قائم ہیں لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ عرب ہیں اور بالآخر انہیں تنازع کے خاتمے کے لیے اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ ہی مل بیٹھنا ہوگا۔"
سعودی ولی عہد نے یمن میں جاری بحران کے سیاسی حل سے متعلق اپنے منصوبہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب مذاکرات کی میز پر ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کی موجودگی کو مسترد نہیں کرے گا۔