سعودی ولی عہد کا دورہ: ایف آئی اے کا خط، کئی حلقوں میں تشویش
عبدالستار، اسلام آباد
28 مارچ 2019
پاکستان میں وفاقی تفتیشی ادارے ایف آئی اے کی طرف سے ملکی صحافیوں اور سیاستدانوں کے خلاف سائبر کرائمز کے حوالے سے تفتیش کی خبروں نے ملک کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
اشتہار
ملک کے سب سے بڑے انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کی سائبر کرائمز برانچ نے چھ صحافیوں اور کچھ سیاسی جماعتوں کے خلاف انکوائریز کی سفارش کی ہے۔ ایف آئی اے کے ایک داخلی لیکن خفیہ خط میں، جو اس ایجنسی کے متعلقہ افسران کو حال ہی میں لکھا گیا، چھ صحافیوں کے ناموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں مرتضیٰ سولنگی، مطیع اللہ جان، اعزاز سید، عمار مسعود اور ہالینڈ میں مقیم پاکستانی احمد وقاص گورایہ بھی شامل ہیں۔ اسی خط میں مجلس وحدت المسلمین، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، حزب التحریر پاکستان اور تعمیرِ وطن پارٹی پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان تنظیموں اور جماعتوں کے ارکان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے گزشتہ دورہ پاکستان کے خلاف انتہائی متحرک پائے گئے تھے۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ ان سب کے خلاف انکوائریز درج کرائی جائیں اور پیش رفت رپورٹ ایف آئی اے کے ایک افسر ایاز خان کو جمع کرائی جائے۔
سیاستدانوں اور صحافیوں نے اس خط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آزادی رائے کو دبانے کی ایک اور کوشش ہے۔ معروف صحافی مطیع اللہ جان نے اس خط کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مجھے اب تک ایف آئی اے کی طرف سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ میرے خیال میں یہ ان کا کوئی اندرونی خط تھا۔ اگر ’ڈان‘ نے چھاپا ہے تو ممکن ہے کہ انہوں نے اس کی تحیقق کی ہو۔ بہرحال یہ بڑی ہی افسوناک بات ہے کہ جمال خاشقجی کی تصویر لگانے سے سعودی ولی عہد کو شرمندگی ہوئی۔ ہم نے تو صرف فیس بک پر اپنی ’ڈی پی‘ کے طور پر خاشقجی کی تصویر لگائی تھی اور اس کے قتل کی شفاف چھان بین کا مطالبہ کیا تھا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پہلے ہی میڈیا پر پابندیاں ہیں، ’’اخبارات میں خبریں سنسر ہو رہی ہیں۔ کالم بھی ایڈیٹ ہو رہے ہیں۔ اور اب یہ حال ہے کہ ہم اپنے نقطہء نظر کا اظہار بھی نہیں کر سکتے ۔ ہم نے صرف اپنی کمیونٹی کے ایک فرد کے قتل کے خلاف اظہار یکجہتی کیا تھا، جس کی خود ریاض حکومت بھی تفتیش کر رہی ہے۔ اس میں شرمندگی کی بات کہاں سے آ گئی؟ اب ایسا لگتا ہے کہ ہم جیسے اس ملک میں پیسے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
سعودی ولی عہد نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا، جب کہ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بھی قرضہ دیا ہے۔ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اسی سرمائے کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کی آزادی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کرائے کے سپاہی بن چکے ہیں۔ چونکہ سعودی عرب ہمیں رقوم دے رہا ہے، اس لیے ہم ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگا رہے ہیں، جو ملکی آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سویلین مارشل لاء کی طرف جا رہی ہے۔ اس نے تمام آزادیاں ختم کر دی ہیں اور اب سوشل میڈیا پر رہ جانے والی تھوڑی سے آزادی بھی ختم کی جا رہی ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک بات ہے۔‘‘
پاکستان پر اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے پہلے ہی بہت تنقید کی جاتی ہے۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں کے خیال میں ملکی میڈیا کو مختلف طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ کالم نگار عمار مسعود کا کہنا ہے کہ اب ایف آئی اے کی تحقیقات سے ملک کی مزید جگ ہنسائی ہو گی۔
انہوں نے کہا، ’’اگر دنیا کو یہ پتہ چلے گا کہ یہ تفتیش اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ہم نے صرف فیس بک پر اپنی ڈی پی کی جگہ جمال خاشقجی کی تصویریں لگا دی تھیں، تو وہ ہم پر ہنسے گی۔ ملک میں پہلے ہی جبر کا ماحول ہے۔ ستر سے زائد چینل پی ٹی وی بن چکے ہیں۔آپ ٹی وی پر بات نہیں کر سکتے۔ اخبار میں کالم نہیں لکھ سکتے اور اب جو تھوڑی بہت جگہ سوشل میڈیا پر ہے بھی، وہ بھی ختم ہونے جا رہی ہے۔‘‘
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟
تصویر: Reuters/Haberturk
12 تصاویر1 | 12
عمار مسعود کا کہنا تھا کہ وہ ان باتوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں، ’’ہم اس کے خلاف بھر پور قانونی جنگ لڑیں گے۔ اس کو ہم صحافیوں کی تنظیموں کے سامنے بھی رکھیں گے اور بین الاقوامی تنظیموں سے بھی رابطہ کریں گے۔‘‘
ادھر مجلس وحدت المسلمین کے رہنما ناصر شیرازی کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورے کے وقت بھی کئی طرح کی پابندیاں لگائی گئی تھیں، ’’لوگ اس دورے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں کسی بھی طرح کی اجازت نہیں دی گئی، جو آئین کی سراسر منافی ہے۔ لوگوں نے پھر بھی سوشل میڈیا پر کسی حد تک اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اب ایک مخصوص لابی ایسے پاکستانیوں کے خلاف کام کرنا چاہتی ہے، جو قابل مذمت ہے۔‘‘
دوسری طرف حکمران جماعت پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات حکومت کے خلاف سازش ہیں۔ پارٹی کے سینیئر رہنما ظفر علی شاہ نے اس موضوع پر بات چیت میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ بیوروکریسی کی طرف سے ہماری حکومت کے خلاف سازش ہے۔ اس میں وزیر اعظم عمران خان کی مرضی شامل نہیں۔ بیوروکریسی انہیں اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے۔ ہم جمہوری انداز میں اقتدار میں آئے ہیں اور سویلین مارشل لاء کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
اس موضوع پر ڈی ڈبلیو نے متعدد مرتبہ حکومت اور ایف آئی اے کا موقف جاننے کے لیے حکام سے رابطے کیے لیکن نہ تو ٹیلی فون کالوں کا کوئی جواب دیا گیا اور نہ ہی تحریری طور پر بھیجے گئے سوالات کا۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔